مجاہدین کی قوت اس وقت عروج پر پہنچ گئی، کیونکہ دھڑے بندیاں نہیں تھیں، داعش نامی وبا نہیں تھی اور مجاہدین کے نعرے میدان میں گونج رہے تھے اور ان کی پیش قدمیوں نے شام میں بشار کے محل اور عراق میں نوری المالکی کی حکومت کر لرزا کر رکھ دیا تھا۔
رفتہ رفتہ شام و عراق کے کونے کونے میں پرچمِ اسلام بلند ہوا اور اس کی وجہ سے یورپ اور امریکہ اور دیگر کئی ممالک سے نوجوان شام اور عراق میں مجاہدین کی صفوں میں شمولیت کے لیے بیتاب ہوگئے۔
لیکن عالم کفر کی متحدہ انٹیلی جنس نے ان نوجوانوں کے جوش و ولولے کو اپنے لیے خطرہ قرار دیا اور ان کے خاتمے کے لیے ایک حل تلاش کر لیا۔
آغاز میں اس طرح زمین سازی کی گئی کہ عراق میں اپنے اجرتی لوگوں کو امر کیا کہ بڑے شہر اور صوبے بلا مذاحمت خالی کر دیں، یہی وجہ تھی کہ موصل شہر، صوبائی مراکز اور بہت سے اہم علاقے بلا مذاحمت داعش کے لیے خالی کر دیے گئے اور اس کی وجہ سے بہت سے نوجوانوں میں یہ جذبہ ابھرا کہ اس غدار فرقے میں شامل ہو جائیں۔
یورپ اور دیگر ممالک سے مسلمان نوجوانوں کی آمد کے ساتھ ہی داعش کی فوج نے شام کے مجاہدین کے بدن میں خنجر گھونپ کر اپنے علاقے وسیع کر لیے اور وہاں کے شہر اور صوبائی مراکز جیسے الرقہ، شمالی حلب، طرابلس، منبج اور دیگر بہت سے علاقے غداری اور خیانت سے قبضے میں لے لیے۔
داعش کا غلبہ کیسے ہوا؟
وہ مقامات جن پر داعش نے اپنے علاقے وسیع کرنے کی خاطر حملہ کیا، وہ ایسے شہر نہیں تھے جو نصیری بشار کی حکومت کے کنٹرول میں ہوں، بلکہ یہ وہ شہر تھے جو ابن ملجم کے پیروکاروں کے ہاتھ آسانی سے آگئے تھے، کیونکہ شامی مجاہدین نے ہزاروں شہداء اور عظیم قربانیوں سے انہیں فتح کیا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب مجاہدین نصیری حکومت سے جنگ میں مصروف تھے، لیکن داعشیوں نے ان کے خلاف نیا محاذ کھول دیا۔