داعش کے جرائم کی داستان نہ ختم ہونے والی ہے اور اس مہلک فرقے نے ہزاروں جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
میری شکستہ تحریریں در حقیقت میدان جنگ کے تجربات اور آنکھوں دیکھے حالات ہیں۔
ابو رضوان کی شہادت کے بعد مجاہدین نے جب بغدادی کے متعدد سپاہی پکڑ لیے اور وہ مجاہدین کی قید میں تھے، تو تین مہاجرین سے، جن میں سے دو کا تعلق شمال مشرقی ایشیاء جبکہ ایک کا تعلق کاسٹا ریکا سے تھا، بات کرتے وقت، جبکہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے، انہوں نے مجاہدین پر حملہ کرنے کی کوشش کی، اور بار بار کہہ رہے تھے کہ اگر ہم کامیاب ہو گئے اور ہمارے ہاتھ پاؤں کھل گئے تو تمہارے سر تن سے جدا کر دیں گے اور یہ ہمارے لیے سو سال کی عبادت سے بھی افضل ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ مجاہدین سے اتنی شدید نفرت کیوں کرتے ہو؟ تو جواب میں کہتے ہیں کہ تم لوگ اللہ کے دین سے مرتد ہو چکے ہو (معاذ اللہ) اور تمہارا جرم کفار سے بھی کہیں زیادہ گرانبار ہے اور جنگ میں تمہارا خاتمہ ہماری ترجیح ہے۔
ایسی باتیں سننے کے بعد میں نے دوسری بار پوچھا کہ مجاہدین کو مرتد کیوں کہتے ہو؟ تو ان کا جواب یہ تھا کہ اس لیے کہ تم لوگ دولت اسلامیہ کے خلاف برسر پیکار ہو، جو کہ عصر حاضر کی پہلی جہادی بغاوت ہے اور اس لیے قرآن کریم کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی بنیاد پر یہ حکم تم لوگوں پر لاگو ہوتا ہے۔
ایک اور شخص جس کا نام ابو اسری دمشقی تھا، اس نے بھی اسی قسم کے بے بنیاد دلائل پیش کیے، لیکن جب میں نے چاہا کہ اس کے ساتھ عقلی اور درست دلائل کے ساتھ بات کروں، تو اس نے میری بات سننے سے انکار کر دیا۔
ایسے لوگ اور اس طرح کے بے بنیاد دلائل بغدادی کے پیروکاروں کی کم علمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی آنکھیں تو ہوں لیکن اس سے فائدہ حاصل نہٰ کرتا ہو، آنکھیں بند رکھتا ہو اور مختلف لوگوں کی ر ہنمائی میں اس طرح چلے جاتا ہو کہ اسے خود خبر نہیں ہوتی کہ کہاں جا رہا ہے، اور نہ ہی ایسے شخص کی زندگی کا کوئی مقصد ہوا کرتا ہے کیونکہ وہ خود کوتاریکیوں اور جہالت میں پھینک چکا ہوتا ہے۔