دیر الزور میں داعش کے جرائم:
دیر الزور شام کے مشرق میں ایک صوبہ ہے، جو خانہ جنگی کے دوران بالخصوص داعش کے تسلط کے دوران خوفناک جرائم کا ایک بڑا گڑھ تھا۔
اپنے تزویراتی محل وقوع اور قدرتی وسائل کی وجہ سے یہ علاقہ داعش کی توجہ کا مرکز بن گیا اور ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۷ء تک ان کے کنٹرول میں رہا۔
۱۔ سرعام پھانسیاں، مجاہدین اور عام شہریوں کے حقوق غصب کرنا:
داعش کی جانب سے سرعام پھانسیاں دینا، خوف پھیلانے اور معاشرے کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ تھیں، وہ تمام لوگ جو کفار، جہادی تحریکوں سے تعاون یا مخالفت کے الزام میں گرفتار ہوتے انہیں سرعام پھانسیاں دی جاتیں۔ یہ پھانسیاں عوامی مقامات پر دی جاتیں تاکہ دیگر لوگوں کے دلوں میں خوف و رعب پیدا کیا جا سکے۔
وحشیانہ قتل: بہت سے افراد گولیوں، سرقلم کیے جانے اور زندہ جلا کر قتل کیے جاتے۔
خاندانی حقوق کی خلاف ورزی: مارے جانے والوں کے اہل خانہ کو نہ صرف غم منانے کا کوئی حق نہیں تھا بلکہ خوف اور خاموشی سے زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔
۲:- اغوا برائے تاوان:
لوگوں کو اغوا کرنا، خاص طور پر نوجوانوں اور مختلف اداروں کے کارکنوں کا اغوا، یہ بھی داعش کی حکمت عملی تھی جس کے دو اہم مقاصد تھے:
۱۔ بھتہ: داعش اغوا شدہ افراد کی رہائی کے بدلے اہل خانہ سے رقم کا مطالبہ کرتی۔
۲۔ انسانی ڈھال کے طور پراستعمال: اغواشدہ افراد کو جنگ کے دوران انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا اوروہ داعش کے مخالفین سے خطرے میں رہتے۔
۳۔ خواتین پر جنسی تشدد اوراستحصال:
دیر الزور میں غیر مسلم خواتین اور لڑکیوں کو منظم جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، داعش نے خواتین کو مال غنیمت کے طور پر جنسی درندگی کا نشانہ بنایا۔
عورتوں کی خرید وفروخت: یزیدی اور دیگر غیر مسلم خواتین کو بازاروں میں بیچا جاتا تھا اور جنسی غلاموں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
تشدد اور جبر: بہت سی خواتین جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا شکار ہوئیں اور اگروہ فرار ہونے کی کوشش کرتیں تو انہیں سخت سزائیں دی جاتیں۔
۴۔ ظلم پر مبنی قوانین کا نفاذ:
داعش نے اپنے ظالمانہ قوانین اور سخت سزاؤں کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں کو ڈرانے، دھمکانے، غرض ہر ناجائز طریقے سے کام لیا۔
۵۔ معیشت اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی:
داعش نے خطے کے معاشی وسائل خصوصاً تیل سے فائدہ اٹھایا، تاکہ اپنی سرگرمیوں کے لیے فنڈنگ کرسکے۔
انفراسٹرکچر کی تباہی: داعش کی حکومت کی وجہ سے معاشی انفراسٹرکچر جیسے بازار اور تعلیمی مراکز تباہ ہو گئے، بہت سے کارخانے اور زرعی علاقے ختم ہو گئے یا کردیے گئے۔
بے روزگاری اورغربت: معیشت کی تباہی کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور لوگوں کو شدید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
۶:- تاریخی اور ثقافتی آثار کی تباہی:
داعش نے دیر الزور میں تاریخی اور ثقافتی یادگاروں کو تباہ کرنے کے لیے قصدا اقدامات کیے۔
تاریخی عمارتوں کی تباہی: مساجد اور دیگر تاریخی عمارتیں جو مقامی لوگوں کے لیے بہت قیمتی تھیں، تباہ کردی گئیں، اس کا مطلب نہ صرف تاریخ اور اس سے متعلقہ آثار کو ختم کرناتھا بلکہ ان اقدامات سے ثقافتی شناخت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
ثقافتی سرگرمیوں پر پابندی: تمام ثقافتی اورفنی سرگرمیاں سختی سے ممنوع تھیں اور کسی بھی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔
نتائج:
۲۰۱۷ء میں داعش کی شکست کے بعد، دیر الزور میں ان جرائم کے ثبوت ملے اور سینکڑوں اجتماعی قبریں ملیں جو داعش کے مظالم کو واضح کرتی ہیں، ان متاثرین میں زیادہ تر سنی اور مجاہدین تھے۔