یہ ایک واضح اور تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ظلم اور تشدد کبھی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا، خاص طور پراگر یہ ظلم اور تشدد مذہب کے نام پر کیا جائے اور لوگوں کی زندگیاں اجیرن کردی جائیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
«وَ مَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ»
اور ہم شہروں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں مگر (اسی وقت) جب ان کے رہنے والے ظالم ہوں ۔
ظلم، تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے اس دہشت گرد گروہ کی فکر اور عمل میں گہری جڑیں پیوست کررکھی ہیں، حالانکہ کسی بھی دینی نص میں نہیں کہا گیا کہ ظلم کی بنیاد پر نظام جاری رہے گا یا کوئی تحریک جبر اور جارحیت کے ذریعے بلند مقام تک پہنچ پائےگی۔
داعش نے اپنے قیام کے وقت سے لے آج تک ظلم اور انسانی حقوق کی پامالی کو ہی اختیارکیے رکھا ہے۔
داعش ایک ایسی تحریک ہے جو بین الاقوامی استکبار اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے منصوبوں کی معاون اور ہمیشہ اسلامی تحریکوں کو دنیا کے سامنے وحشی اورغیر انسانی کے طور پر دکھاتی ہے۔
اگر ہم اس گروہ کے اعمال اور رویے کا گہرائی اور منصفانہ جائزہ لیں تو واضح ہوگا کہ یہ فکر اور تحریک اسلامی نظام کے تقاضوں سے بہت دور ہے۔
اسلام میں جارحیت اور انسانی حقوق کی پامالی کی ستائش کبھی بھی نہیں کی گئی، اسلام نے اس نظریے کو کبھی منظور نہیں کیا کہ بعض افراد دوسروں کے حقوق پامال کرنے کی کوشش کریں۔
ہر وہ تحریک اور تنظیم جو کسی بھی نام اور شکل میں آئے، اگر وہ ظلم اور تشدد کا راستہ اختیار کرے، کبھی بھی اسلامی اصول ان کی تصدیق نہیں کرسکتے، داعش نے اپنے عمل وفکر سے خود کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا ہے۔
دوسری طرف اپنی غیر اخلاقی اوردین مخالف حرکتوں سے اس نے دنیا اور بالخصوص جہادی گروہوں پر واضح کر دیا ہے کہ یہ تحریک اور تنظیم بالآخر ہلاکت و تباہی سے دوچار ہوگی۔
داعش کے خاتمے کی وجوہات:
۱ ـ ظلم و وحشت:
اسلامی تعلیمات، قرآن کریم کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث میں واضح طور پر مذکور ہے کہ کوئی بھی حکومت ظلم پر قائم نہیں رہ سکتی، داعش ظالمانہ رویے کے ساتھ نمودار ہوئی، نہ صرف یہ کہ اس نے انسانیت پر کوئی رحم نہیں کیا بلکہ اس ظلم میں انہوں نے مسلمان اور غیر مسلم کی تفریق بھی نہیں کی۔
داعش نے ان ممالک میں سرگرمیاں شروع کیں جہاں مسلمان برسوں سے سکون کی زندگیاں جی رہے تھے لیکن داعش نے اپنے ظالمانہ کردار سے ان علاقوں کو تباہ و برباد کر کے مسلمانوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبورکردیا ۔
۲ ـ مقاصد کے تسلسل کا فقدان:
داعش اپنی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے ہر وقت اپنے منصوبے بدلتی رہتی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے کوئی مقررہ اور واضح اہداف نہیں ہیں، یہ دراصل یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ دوسروں کے ماتحت اور محکوم ہیں۔
کوئی بھی نظام یا تحریک جس کے اپنے مقاصد اورنظام نہ ہو اور وہ دوسروں کی پیروی کرے گا اس کی تحریکی زندگی کبھی طویل نہیں ہوگی اور جو بالآخر تباہی اور شکست کا سامنا کرے گی۔
۳ ـ عوامی حمایت سے محرومی:
یہ گروہ درحقیقت بہت سے علاقوں میں عوامی حمایت کھو چکا ہے، ہر وہ تحریک جو اپنے علاقے میں عوامی حمایت سے محروم ہوجائے وہ ہر قدم پرتباہی کے قریب ہوتی جائے گی۔
داعش نے ظلم اور بربریت کا طریقہ اختیار کرکے ایسے لوگوں کا قتل عام کیا جن میں اکثریت مذہبی مسلمان تھے، اب تمام لوگوں کو یقین ہوچکا ہے کہ یہ تحریک اور تنظیم اسلام کے مقدس مقاصد کی تکمیل کے لیے نہیں بنائی گئی تھی، بلکہ اسلام کے خلاف دنیا کے اعتماد کو کم کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے۔