۳۔ سوشل نیٹ ورکس کا استعمال:
چونکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی رفتار کو دوگنا کر دیا ہے، داعش بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہے۔ اس طرح وہ آسانی سے اپنا پیغام پوری دنیا تک پہنچا کرمختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو اپیل کرسکتی ہے۔
اس دور میں میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس کو سیاسی، عسکری، سماجی اور ثقافتی اہداف کی ترقی کا سب سے اہم پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے، سوشل نیٹ ورکس میں داعشی گروہ کی آزادانہ اور وسیع سرگرمی مخصوص اہداف کے حصول کے لیے سہولیات فراہم کرتی ہے۔
داعش کے پروپیگنڈا وسائل کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈٰیا نیٹ ورکس جیسے وٹس ایپ، ایکس، فیس بک، ٹیلی گرام وغیرہ سے پروپیگنڈے۔
۲۔ روایتی میڈیا جیسے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے اشتہارات اور سرگرمیاں۔
داعش تین بڑے اور کلیدی طریقوں سے میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں تک اپنا پیغام پہنچاتی ہے، ایک طرف وہ اپنے وحشی جرائم اور مظالم کو میڈیا میں دکھا کر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف اپنی جھوٹی اور من گھڑت خبریں پھیلانے اور نشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
داعش کا تیسرا میڈیا کا طریقہ کار چند انسانیت دوست مناظر دکھانا ہے، جو کہ پہلے طریقے سے مکمل متضاد اور متصادم ہے۔
داعشی دہشت گرد گروہ ایک طرف دوہرے اور متضاد رویے سے اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف دنیا کے لوگوں میں نسبتاً مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن وہ اس مقصد تک پہنچنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
عام طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان نیٹ ورکس میں داعشی گروہ کے اہداف میں سے، اپنی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرنا، اپنی شرعی حیثیت حاصل کرنا اورلوگوں سے قبول کروانا، اپنے وجود اورطاقت کو ثابت کرنا شامل ہے۔
اگرچہ ہر جماعت، تنظیم اور تحریک نے میڈیا کی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے، لیکن داعشی گروہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دستیاب میڈیا سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا ہے۔ اسی وجہ سے، کچھ تجزیہ کار انٹرنیٹ کو "داعش کا مرکزی میدان” کہتے ہیں۔