داعش کس طرح لوگوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہے؟ | چھٹی قسط

احمد عابد

۵۔ جنسی ذرائع کا استعمال:

داعش اپنی صفوں میں مزید لوگوں کو شامل کرنے کے لیے مختلف جنسی ذرائع کا استعمال کرتی ہے۔ یہ جنسی آزادی اکثر مردوں، خاص طور پر جنگجوؤں کے لیے مخصوص ہوتی ہے، جو عملی طور پر جنسی استحصال، غلامی اور دینی اصولوں کی تحریف پر مبنی ہوتی ہے۔

وہ افراد جو اپنے معاشرے میں زندگی، محبت یا جنسی تعلقات کے حوالے سے ناخوش ہیں، خاص طور پر داعش کی طرف سے ہدف بنائے جاتے ہیں، داعش ان افراد سے یہ وعدہ کرتی ہے کہ وہ جھوٹی خلافت میں شامل ہو کر نہ صرف اپنی زندگی بدل لیں گے بلکہ جنسی اور جذباتی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ دینی انعامات کے بھی حقدار بنیں گے۔

داعش ایک طرف تو مغربی معاشروں میں زندگی کو غیر اخلاقی اور بے قدر زندگی کے طور پر پیش کرتی ہے، جبکہ دوسری طرف "اپنی شرعی” چھتری کے تحت ایک نئی قسم کی جنسی آزادی کی دعوت دیتی ہے۔ یاد رکھیں کہ وہ افراد جو جنسی محرومی کا احساس رکھتے ہیں، ایسے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر بہت جلد داعش کے تنگ حلقے میں شامل ہو جاتے ہیں۔

وہ افراد جو جنسی کشش کی بنیاد پر داعش کی تاریک آغوش میں پناہ لیتے ہیں، "جہاد نکاح”، جنسی تعلقات اور عارضی شادی جیسے اصطلاحات کے ذریعے بہکائے جاتے ہیں۔

"جہاد نکاح” وہ اصطلاح ہے جو داعش مردوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہ اصطلاح عارضی جنسی تعلقات کے لیے استعمال کی جاتی ہے تاکہ "جنگی جذبے کو مضبوط کیا جا سکے”، حالانکہ یہ تصور اسلام کے پاکیزہ دین میں کوئی بنیاد نہیں رکھتا، داعش اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بے خبر ہونے کی وجہ سے، غلط تفسیر اور تحریف کے ذریعے بہت سے بے خبر لوگوں کو دھوکہ دے چکی ہے۔

داعش سوشل میڈیا کے ذریعے مردوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے خلافت کا ایسا تصور پیش کرتی ہے جس میں مرد عورتوں کو جنسی آلات کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں اور جنسی آزادی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، یہ گروہ ماضی میں ایزدی، عیسائی اور مسلم خواتین کو”جنگی غنیمتوں” کے طور پر جنگجوؤں کے حوالے کرتا رہا ہے تاکہ ان سے جنسی آلات یا گھریلو کنیزوں کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔

داعش کی "جنسی آزادیوں” کی ایک واضح شکل جنسی مارکیٹوں کا قیام تھا، جہاں خواتین اور لڑکیاں مال کی طرح بیچی جاتی تھیں، ان خواتین کی قیمت عمر، خوبصورتی اور حیثیت کی بنیاد پر مقرر کی جاتی تھی۔

ان معلومات کے بعد آپ شاید جان گئے ہوں گے کہ داعش کی نظر میں جنسی آزادی کا تصور صرف ایک دھوکہ دہی پر مبنی پروپیگنڈے کا وسیلہ ہے جو لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

یہ وعدے اکثر اوقات دھوکے پر مبنی ہوتے ہیں؛ بہت سے افراد جو داعش میں شامل ہوئے تھے، اس گروہ کی زیادتیوں اور ظلم پر مبنی حقائق کا علم ہونے کے بعد پچھتائے ہیں۔

اسی طرح، وہ خواتین اور لڑکیاں جو بہتر زندگی کی امید میں داعش کے پاس گئیں، زیادہ تر تشدد، جنسی زیادتیوں، ناجائز تعلقات کا شکار ہو چکی ہیں، لہذا یہ ظاہری آزادی در حقیقت صرف جنگجو مردوں کے لیے موجود ہے اور براہ راست خواتین کے استحصال، اذیت اور ان کے تمام حقوق کی پامالی سے جڑی ہوئی ہے۔

Author

Exit mobile version