گذشتہ خوارج اور موجودہ خوارج (یا معاصر انتہاپسند گروہ) کے درمیان وقت، مقاصد، حکمت عملیوں اور رویوں کے حوالے سے کچھ اہم فرق ہیں، جو یہاں مختصراً بیان کیے جاتے ہیں:
۱۔ گذشتہ خوارج اسلام میں ابتدائی سیاسی اور مذہبی مخالفین تھے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکومتی اقدامات کی وجہ سے مسلمانوں سے الگ ہو گئے تھے، وہ اسلام میں تشدد کے طریقہ کار پر عمل پیرا تھے اور مسلمانوں کے تکفیر کرنے پر ایمان رکھتے تھے، ان کی سوچ کا بنیادی اصول یہ تھا کہ اگر کوئی مسلمان گناہ کبیرہ کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔
موجودہ انتہاپسند گروہ جیسے داعش اور بعض دیگر سخت گیر نظریات اور تکفیر کی سوچ رکھتے ہیں، لیکن ان کا تکفیر کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اکثر اوقات اس نظریے کو انتہائی اندازمیں استعمال کیا جاتا ہے، یہ گروہ اکثراوقات ان افراد کی بھی تکفیر کرتے ہیں اور انہیں مرتد قراردیتے ہیں جو داعش کے نظریات اور حکمت عملی سے اتفاق نہیں رکھتے یا کسی سطح پر ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔
۲۔ ماضی کے خوارج کا بنیادی مقصد اسلامی خلافت کوپاک کرنا اوران کی نظر میں "پاک مسلمانوں” کی حکمرانی قائم کرنا تھا، ان کی جدوجہد اور حکمت عملی یقیناغلط تھی، اکثر اوقات وہ اپنے وقت کے حکومتی نظام کے خلاف تھی۔
موجودہ خوارج اپنی سیاسی مقاصد کو عالمی سطح تک پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسلمان کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں پر بھی اپنے انحرافی عقائد کو طاقت کے زور پر مسلط کریں، ان کی حکمت عملی بہت جارحانہ ہے، جس میں خودکش حملے، شہریوں کو نقصان پہنچانا اور عالمی دہشت گردی نیٹ ورکس قائم کرنا شامل ہیں۔
۳۔ ماضی کے خوارج عموماً مسلح جنگوں کی صورت میں لڑائی کرتے تھے اور وہ اسلحہ اور حکمت عملی استعمال کرتے تھے جو اُس وقت دستیاب تھیں، جیسے کہ تلواروں اور نیزوں کا استعمال، لیکن موجودہ خوارج جدید اسلحہ، ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور خودکش حملوں کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ کو شدت پسندی پھیلانے اور لوگوں کو بہکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور خودکش حملوں، بم دھماکوں اور جنگی اصول کے علاوہ دیگر حکمت عملیوں کے ذریعے اپنے غلط عقائد کو فروغ دیتے ہیں۔
۴۔ ماضی کے خوارج ان لوگوں کے خلاف جنگ کرتے تھے جو ان کے سخت عقائد سے اختلاف رکھتے تھے، لیکن ان کا رویہ عموماً مخصوص افراد اور گروپوں تک محدود ہوتا تھا، لیکن موجودہ خوارج بے رحمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور عام شہریوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں، چاہے وہ جنگجو ہوں یا نہ ہوں، وہ اعلانیہ طور پر بے گناہ لوگوں کے قتل کو جواز فراہم کرتے ہیں اور دہشت پھیلانے کے لیے وحشت کا استعمال کرتے ہیں۔
۵۔ ماضی کے خوارج دینی نصوص کی ظاہری تفسیر کرتے تھے اور تفسیر میں گیرائی و گہرائی کو نظرانداز کرتے تھے، لیکن موجودہ خوارج نہ صرف دینی نصوص کی ظاہری تفسیر و تشریح کرتے ہیں، بلکہ اپنے سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے بعض اوقات ان میں تحریف بھی کرتے ہیں، وہ قرآن اور حدیث کی ان آیات سے استدلال کرتے ہیں، جو ان کے سخت گیر مؤقف اور جنگی سرگرمیوں کو جواز فراہم کرتی ہیں، جبکہ وہ ان آیات کو نظرانداز کرتے ہیں جو رحمت اور انصاف کے پہلو کو واضح کرتی ہیں۔
۶۔ ماضی کے خوارج بنیادی طور پر صرف ان لوگوں کی تکفیر کرتے تھے، جو ان کے دینی اصولوں سے واضح طور پر اختلاف رکھتے تھے، لیکن موجودہ خوارج وسیع پیمانے پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کو دشمن سمجھتے ہیں اور صرف اپنے پیروکاروں کو "حقیقی مسلمان” قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ ان گروپوں کے خلاف بھی جنگ کرتے ہیں جو ان جیسے شدت پسند نہیں ہوتے۔
۷۔ ماضی کے خوارج کی تبلیغ، نشر و اشاعت محدود تھی، اس دور میں وہ اپنے نظریات کے پھیلاؤ کے لیے عوامی خطبوں اور دینی مجالس کا سہارا لیتے تھے، لیکن موجودہ خوارج انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور مختلف پروپیگنڈا کے ذرائع کا وسیع پیمانے پر استعمال کرتے ہیں، وہ اپنے نظریات کو عالمی سطح پر پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور رائے عامہ کو کنٹرول کر کے لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ماضی کے خوارج اور موجودہ خوارج دونوں بنیادی طور پر شدت پسند گروہ ہیں، مگر موجودہ خوارج نے ٹیکنالوجی، وسیع پروپیگنڈہ اور عالمی روابط کے ذریعے اپنے اقدامات کو بڑھایا ہے اور پچھلے خوارج کے مقابلے میں ان کے خطرات زیادہ ہیں۔