درحقیقت داعش کی نوعیت اور حقیقت سب پر عیاں ہے، یہ ایک دہشت گرد گروہ ہے جس کا نام خوف، تشدد اور دہشت سے جڑا ہوا ہے، یہ گروہ اور ان کی خفیہ تنظیم جو ایک منحرف نظریے کی حامل ہے، جس نے اپنے وحشیانہ اقدامات سے نہ صرف خطے کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ انہوں نے انسانیت، عزت، غیرت اور وقار کا مذاق اڑایا ہے۔
داعش ایک غیر ثابت شدہ اور تحریف شدہ تشریح کے ساتھ نفرت اور تشدد کو فروغ دے کر ایک اسلامی خلافت قائم کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے، یہ گروہ آج دنیا کی سلامتی کے لیے ایک بڑے چیلینج کے طور پر وجود میں آیا ہے، انہوں نے دین کے لبادے میں اسلام کی ایک نئی مسخ شدہ تصویر پیش کی ہے لیکن حقیقت میں یہ دین کی وہ تشریح و تفسیر ہے جو دین کے بنیادی اصول و ضوابط سے بہت دور ہے۔
اگر آج مسلمانوں کو غیر ملکی خطرے کا سامنا ہوتا تو شاید وہ اپنے آپ کو اتنا کمزور اور بے بس محسوس نہ کرتے کیونکہ یہ داخلی اور دین اسلام کے لبادے میں بنایا گیا وہ منصوبہ ہے جسے اس کے بانیان نے بہت سوچ سمجھ کر دین اسلام کے خلاف میدان میں اتارا ہے۔
اس صورت حال نے ایک طرف مسلمانوں کو شکوک اور کمزوری میں ڈال دیا ہے اور دوسری طرف دشمنان اسلام کو اسلامی معاشروں پر حملہ کرنے اور وہاں اپنے نظریات اور مقاصد مسلط کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔
لیکن اس دوران علماء کرام پر مسلمانوں کے فکری اور مذہبی رہنماؤں کی حیثیت سے، اس المناک اور نئی مذہبی اور جہادی تشریح کے خلاف بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
علمائے کرام کی ذمہ داریاں:
علمائے اسلام پر فرض ہے کہ وہ دین اسلام کو ان مضر اور نقصان دہ نظریات سے دور رکھیں، اس حوالے سے اہل علم کی چند اہم ذمہ داریاں درج ذیل ہیں:
١: اسلام کی صحیح تفسیر:
علماء کو اسلام میں امن، رحمت اور انصاف کے تصور کو پوری طرح اور واضح انداز میں ان کی صحیح اور منطقی تشریح پیش کریں۔
۲: داعش کے نظریات اور عقائد کو بے نقاب کرنا:
عالم اسلام کے علماء و مفکرین کو چاہیے کہ وہ داعش کے منحرف نظریات اور اقدامات کو بے نقاب کریں اور لوگوں کو دکھائیں کہ یہ گروہ حقیقی اسلام سے کتنا دور ہے۔
۳: آپسی تعصبات اور اختلافات کی روک تھام:
علماء کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دیں اور داعش کو مذہبی اختلافات سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دیں۔
۴: نوجوان نسل کی تربیت و تعلیم:
علماء کرام کو چاہیے کہ وہ نوجوان نسل کو حقیقی اسلام کی تربیت دیں اور باطل نظریات کے خلاف جدوجہد کریں، تاکہ شر وفساد کی طرف ان کے میلان کو روکا جا سکے۔
علمائے کرام پرمسلمانوں کے دانشور اور مذہبی رہنماؤں کی حیثیت سے، دہشت گرد گروہ داعش کے عقائد کو واضح کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اہم اور ضروری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، علماء داعش کے اثر و رسوخ کو کم کر کے امت اسلامیہ کو بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
اور یہ اہم نکتہ یاد رکھیں کہ جس قدر داعش کی نام نہاد فکر و نظریہ معاشرے میں پھیلے گا اسی سطح پر اسلامی نظام پر لوگوں کااعتماد کمزور ہوتا جائے گا۔
لہٰذا تمام مسلمانوں بالخصوص علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بدنصیب و ظالم گروہ کے خلاف عملی اور بنیادی اقدامات کریں۔