عصر حاضر کے طاغوت سے داعش کی فکری ہم آہنگی
حقیقتا افغانستان ایسی سرزمین ہے جو عظیم قربانیوں اور بہادریوں کی گواہ رہی ہے، ایسی بہادریاں کہ جنہیں کوئی بھی باشعور نہ فراموش کر سکتا ہے اور نہ ہی جس سے انکار کیا جاسکتاہے؛ معاصر تاریخ میں پوری دنیا اس سرزمین کے فرزندوں کی شجاعت پر اس قدر حیران ہوئی ہے کہ ان کی قربانیوں پر یقین کرنا بعض اوقات عقل سے بالا تر محسوس ہوتا ہے۔
بہت سے طاغوتی قوتوں نے اس ملک کو زیر کرنے کا عزم کیا، کئی زہریلی نگاہیں اس پر ٹکی رہیں اور کئی طاقتوں نے اسے ہتھیانے کی کوشش کی، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ سرزمین کسی کے لیے بھی قابل فتح ثابت نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ بڑے بڑے طاقتوروں کا قبرستان رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
اسی فکری پس منظر کے تحت، داعش نے طاغوتی قوتوں کے ساتھ فکری ہم آہنگی اور عملی تعاون کے ذریعے کوشش کی کہ اس سرزمین کو کمزور کرے، اس مضبوط قلعے کو ہلا دے اور اپنے وحشیانہ نظریات اور اپنے ہم خیالوں کے افکار و نظریات یہاں نافذ کرے۔
مگر وہ اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ یہ سرزمین دینی اعتقادات اور مقدس اسلامی تعلیمات سے اس قدر گہرے رشتے میں جُڑی ہوئی ہے کہ کوئی بھی طاقت یا جبر اسے اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظام کی محبت سے جدا نہیں کر سکتا۔
داعش، جو مغرب کی ایک منصوبہ بند سازش کے طور پر چلائی جا رہی ہے، عصر حاضر کے طاغوت کی فکری ہم آہنگی کے ساتھ، اس ملک کو تباہ کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہوئی۔ چند دنوں تک، انہوں نے ان علاقوں میں کارروائیاں کیں جو خالی یا کم آباد تھے، اور وہاں فساد و فتنہ کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی۔ لیکن بہت جلد ان کی حقیقت، ان کی شناخت اور ان کے مقاصد عوام پر عیاں ہو گئے اور لوگوں نے ان کے گمراہ کن راستے کو پہچان لیا۔
درحقیقت، افغانستان کی پاک سرزمین اس قسم کے نظریات کی کاشت کے لیے موزوں نہیں رہی اور نہ ہی کبھی ہوگی۔ اس زرخیز اسلامی خطے میں، داعش جیسے گروہوں اور ان کے ہم خیالوں کے نظریات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی ہوگی۔
افغانستان میں عوام اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں، داعش کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے بخوبی دیکھ لیا کہ اس سرزمین پر، جہاں کے عوام نے کھلے دل سے عادلانہ اسلامی نظام کو قبول کیا ہے، ان کے افکار و نظریات اور تخریب کاریاں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔
اسی سبب، انہوں نے اپنی لڑائی کے طریقہ کار کو ایک نئے انداز میں بدل دیا اور اپنی سرگرمیوں کو ایک نیا لبادہ پہنا دیا۔
داعش، جو کہ معاصر طاغوتی طاقتوں کی جنگی منصوبہ بندی کو ایک ٹھیکیدار کی حیثیت سے عملی جامہ پہناتی ہے، اس نتیجے پر پہنچی کہ افغانستان میں اپنی جدوجہد کو ایک نیا، غیر عسکری یعنی فکری محاذ پر منتقل کرے۔ مگر چونکہ افغانستان کے موجودہ نظام میں علماء اور دانشوروں کو ایک نمایاں اور مؤثر مقام حاصل ہے، اس لیے داعش کی یہ نئی اور جدید حکمتِ عملی بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔
اس سرزمین کے علماء، خصوصاً حقانی علماء نے داعش کے فکری اور مسلح فتنے کے خلاف ایسی بے مثال جدوجہد کی کہ دشمنوں کے ذہنوں میں ایک بار پھر عسکری شکست کی یادیں تازہ ہو گئیں۔
اگر ہم افغانستان کی مزاحمتی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں، تو ہمیں جہاد اور جدوجہد کے ہر میدان میں علماء کا نمایاں کردار واضح طور پر نظر آتا ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو تاریخ نے عالمی استکباری طاقتوں کو دیا ہے؛ جب بھی علم و تقویٰ کے حامل افراد نوجوانوں کے ہمراہ میدان میں اترے ہیں، دشمن کی شکست، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور اور اسلحہ سے لیس کیوں نہ ہو، یقینی بن گئی ہے۔
افغانستان میں علماء کی قیادت میں ہونے والی اس جدوجہد نے دشمنوں کو زبردست نقصان پہنچایا اور ان کی فکری بنیادوں کے ساتھ ساتھ جسمانی موجودگی کو بھی اس سرزمین سے ختم کردیا۔ داعش جیسا گروہ، جو افغانستان کی تاریخ اور یہاں کے حملہ آوروں کا انجام بھول چکا ہے، چاہتا ہے کہ اس سرزمین پر اپنے منطقی انجام تک پہنچے ۔
یہ وحشی گروہ، ایسی سرزمین میں قدم جمانا چاہتا ہے جس کا چپہ چپہ شہداء کے خون سے سیراب ہے، وہ جلد ہی اپنے انجام کو پہنچے گا۔ عوام کی طرف سے عادلانہ اسلامی نظام کی بھرپور حمایت، کبھی بھی داعش اور ان کے ہم خیالوں کو اس ملک میں جگہ نہیں دے گی۔