افغانستان داعش کے لیے کیوں اہم ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان دنیا کی بڑی طاقتوں کی جنگوں اور تنازعات کا میدان رہا ہے، اب بھی ہے اور بظاہر آئندہ بھی رہے گا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ سرزمین نہ صرف قدرتی وسائل اور معدنی ذخائر سے مالا مال ہے بلکہ یہاں کے بہادر، غیرتمند اور جنگجو عوام نے اس ملک کو ایک منفرد حیثیت عطا کی ہے۔
افغانستان اپنی مخصوص جغرافیائی حیثیت اور قدرتی دولت کے باعث ہر عالمی قوت کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں سے ایشیائی ممالک کے بیشتر علاقوں تک رسائی نہایت آسان، تیز اور مؤثر ہے۔
داعش، جو دنیا بھر میں اپنے انتہا پسند نظریات کے نفاذ کی کوشش میں مصروف ہے، اس صورتحال کو بہت باریک بینی سے دیکھ رہی ہے۔ لہٰذا، یہ بالکل فطری بات ہے کہ انہوں نے اس خطے کے لیے مخصوص منصوبے اور حکمتِ عملی تیار کی ہوں۔
دوسری جانب، افغانستان میں ایک ایسا اسلامی نظام قائم ہوچکا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہے، تو یہ بھی قدرتی بات ہے کہ داعش اور ان کے فکری ہم نوا اس صورتحال سے خائف اور پریشان ہوں گے۔
ایسا نظام دیکھنا جو عوام کی جانب سے قائم کیا گیا ہو، عوام ہی کے لیے ہو اور اسلامی عدل کے اصولوں کو نافذ کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہو، ان عناصر کے لیے ایک تلخ حقیقت ہے جن کے دل نفرت اور تاریکی سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ یقیناً اس نظام، حکومت اور عوام پر حملے کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنے ساتھ سازشیں اور منصوبے رکھیں گے۔
جب کوئی شخص داعش کی حکمتِ عملی کا گہرائی سے جائزہ لیتا ہے اور ان کے توسیعی منصوبوں اور مقاصد کا مطالعہ کرتا ہے، تو وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ داعش افغانستان میں کیا چاہتی ہے اور کیوں اپنے وجود کو یہاں مضبوط ظاہر کرنا چاہتی ہے۔ اگر کوئی خود سے یہ سوال کرے کہ ’’افغانستان داعش کے طویل المدت اہداف اور جغرافیائی وسعت کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے؟‘‘
تو یقیناً وہ ایسے حیران کن جوابات پائے گا جو چشم کشا ہوں گے۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال، اس کا جغرافیائی محلِ وقوع اورخاص امتیازات ہی ہیں جن کی وجہ سے اس گروہ کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی ہے۔ داعش اس نظریے پر یقین رکھتی ہے کہ اگر وہ یہاں کے موجودہ نظم کو عدم استحکام کا شکار بنائے، تو وہ اس سرزمین کی نئے نسل، خصوصاً نوجوانوں کو، اپنے گمراہ کن نظریات کا شکار بنا سکتی ہے اور اپنے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ حاصل کر سکتی ہے۔
داعش یہ بھی سمجھتی ہے کہ افغان عوام، اپنی تاریخی پس منظر اور موجودہ فکری کیفیت کے لحاظ سے، اس صلاحیت کے حامل ہیں کہ انتقام کے جذبات کو بھڑکا سکیں، خاص طور پر اُن نوجوانوں کے درمیان جنہوں نے کئی سال جنگ، غربت اور جھوٹے حکمرانوں کے دباؤ میں گزارے ہیں۔
سالہا سال کی جنگوں اور کٹھ پتلی حکومتوں کے ہاتھوں بے شمار اقدار کی پامالی نے افغان عوام کے دلوں میں ایسی مزاحمتی روح بیدار کی، جو اجرتی اور مسلط نظاموں کے خلاف پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور تیز تر ہوگئی۔ افغانستان کی پُرعزم، قربانی دینے والی اور غیرتمند عوام داعش کی حریص نگاہوں کے لیے ایک ایسی امید بن گئی تھی جس پر وہ اپنے مکروہ مقاصد مسلط کرنا چاہتے تھے۔
لیکن جب یہاں ایک اسلامی نظام قائم ہوا، تو داعش کی وہ امیدیں اور خیالات نقش بر آب ہو کر رہ گئے۔ دوسری جانب، داعش جو کہ خالصتاً انٹیلیجنس منصوبہ ہے اور اسلامی حکومتوں کے خلاف بنایا گیا ہے، وہ ایسا نظام ہرگز برداشت نہیں کرسکتے جو اصولوں پر مبنی ہو اور جس کا رشتہ براہِ راست عوام سے جُڑا ہو۔
داعش، جو خود کو خطے اور دنیا میں ایک مؤثر کھلاڑی کے طور پر پیش کرنا چاہتی تھی، اس کے لیے ضروری تھا کہ کسی اسٹریٹجک مقام پر قدم جمائے اور ایسے افراد کو جمع کرے جن سے دنیا خوف زدہ ہو۔ ان کے خیال میں افغانستان سے بہتر جگہ کوئی اور نہ تھی؛ ایک ایسی سرزمین جہاں کے لوگ ایک مضبوط اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے قیام کیے ہوئے ہیں اور داعش بھی اپنے نعروں میں ایسے ہی دعوے کرتی تھی۔
اسی سوچ کے تحت، انہوں نے کوشش کی کہ اس سرزمین پر قبضے کے ذریعے اپنے لیے ایک قلعہ اور فکری جنگ کا ایک ناقابلِ تسخیر مورچہ قائم کرے۔ مگر اللہ رب العزت نے ایک بار پھر اس قوم کو دشمنوں سے محفوظ رکھا اور عدل و انصاف پر مبنی اسلامی نظام کے قیام کے ساتھ ساتھ ملت کو ان شیطانی عناصر کے شر سے نجات عطا فرمائی۔
داعش، جو اپنی امیدوں سے مایوس ہو چکی تھی، اس نے اسلامی نظام کے ابتدائی سالوں میں اپنے وحشیانہ حملوں میں شدت پیدا کی؛ لیکن چونکہ یہ گروہ اس سرزمین کا نہیں ہے نہ ہی ان کے افکار و نظریات یہاں کے لوگوں کو قابلِ قبول ہیں، اور یہ خطہ بے اصل و بے نسب گروہوں کے لیے کبھی محفوظ پناہ گاہ نہیں بن سکتا، لہٰذا یہ گروہ بھی دیگر قابضین اور دشمنوں کی طرح شکست، ذلت اور رسوائی سے دوچار ہوا۔ افغان قوم کی تاریخ میں یہ ایک اور ناپاک دشمن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
داعش کی سوچ اور نظریاتی زاویے سے دیکھا جائے، تو افغانستان نہ صرف ایک اہم مرکز ہے، بلکہ ایک اسٹریٹجک راستہ بھی ہے جو ان کے بڑے اہداف اور دیگر علاقوں تک رسائی کے لیے ایک پُل کی حیثیت رکھتا ہے۔ داعش اور ان کے سرپرست بخوبی جانتے ہیں کہ افغانستان ان کے لیے ایک کلیدی گزرگاہ ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی طویل المدت خواہشات اور جغرافیائی توسیع کے منصوبوں کو عملی شکل دے سکتے ہیں۔