ہر گروہ اور تحریک کی فکر کا تجزیہ کرتے وقت ان کی فکری حکمت عملی کا جائزہ لینا ضروری ہے، تاکہ ہم اس تحریک کے بنیادی اورخفیہ نظریات کو بہتر طورپر سمجھ سکیں۔
داعش کا نظریہ ایک تکون پرقائم ہے، ایک ایسا تکون یا مثلث جسے معاشرے کی بربادی اور تباہی کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں، عملی طور پر یہ تین نکات داعش کی فکری و نظریاتی رہنمائی میں بہت واضح ہیں اور ان کے پروگراموں میں بھی نظر آتے ہیں۔
۱: تباہی:
داعش کے فکری ڈھانچے میں تباہی ان کے اہم عناصر میں سے ایک ہے، یہ لوگ اسی فکر پر پروان چڑھے ہیں اور اپنے آقاؤں کی رہنمائی سے اپنے قلیل مدتی اور طویل مدتی اہداف کے حصول کے لیے اس آلے کو استعمال کرتے ہیں۔
یہ ایک ایسا ٹولہ ہے جو ہر شہر اور علاقے کے باسیوں کے دلوں میں خوف اور دہشت پھیلانا چاہتا ہے، یہ رویہ حقیقت میں ایک غیرانسانی وغیر فطری رویہ ہے۔
درحقیقت اسلام نے انسانوں کو آباد کاری اور تعمیر کی تعلیم دی ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انسانوں کو اس جانب متوجہ کیا ہے کہ انسان کا کام معاشرے کی تعمیر وترقی ہے۔
بحیثیت نظام یا اس کے شہری ہونے کے ناطے مسلمانوں کو خوشحالی وآبادی کی تلاش میں رہنا چاہیے اوراپنے آپ کو تباہی وبربادی سے دوررکھنا چاہیے، مگر داعش کی فکر اس بنیاد پر قائم ہےکہ دہشت کے ذریعے لوگوں کو اپنا تابع کریں، اسی لیے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہ اس فکر سے کام لیتے ہیں اس رجحان کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
۲: وحشت:
وحشت وبربریت داعش کی ساخت وبنیاد میں شامل ہے، اول سے آخر تک ان کی تمام ترامور اسی پالیسی کے گرد گھومتے ہیں۔
خوف پھیلانا اور وحشت کا نظریہ رکھنا، ان کے پروگراموں کے ایک بنیادی اصول کے طور پر جانا جاتا ہے، اسلامی تعلیمات میں اس فکر کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اسلام اس فکر کو قبول کرنے کا روادار ہے۔
اسلام مسلمانوں کو اخلاقی لحاظ سے بھی اس فکر سے روکتا ہے اور اسلامی تعلیمات میں ایسی کوئی بات نہیں جس کی بنا پرمسلمان یا کسی بھی انسان کو تشدد کی راہ اپنانی چاہیے، اسلام تو ہمیشہ سے مسلمانوں حتی غیرمسلموں کو بھی امن وباہمی تعاون کی دعوت دیتا ہے۔
اسلامی نظام میں ہر فرد کے حقوق واضح اور معلوم ہیں، ہر فرد کو اس کے حقوق دیے گیے ہیں۔
۳: دوسروں کا انکاراور سرکشی:
داعش میں موجود بدترین اصولوں میں سے ایک دوسری تحریکوں کو نظر انداز کرنا اور مسترد کرنا ہے۔
ان کی سوچ سرکشی وخودسری پر مبنی ہے، اس لیے کوئی بھی انہیں قبول نہیں کرتا اوراگر معاشرے میں کوئی اصلاح ہو بھی تو وہ چاہتے ہیں کہ اپنے طریقے اور اصولوں سے ہونی چاہیے۔
اگر کوئی دوسری جماعت یا تنظیم معاشرے میں کوئی اصلاح کرتی ہے، اگرچہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہو، یہ لوگ اسے قبول نہیں کرتے، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ اصلاح ان کے ہاتھ سے ہونی چاہیے تھی۔
داعش کا یہ محدود نظریہ دنیا میں اور مسلمانوں میں کبھی جگہ نہیں پا سکتا، کیونکہ یہ تینوں خصوصیات جو ان میں موجود ہیں کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں ہیں اور اسلام، اس کی تعلیمات ان افکار سے پاک ومبرا ہے۔