اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو بھی فتنہ سر اٹھاتا ہے اس کے پیچھے لازما شیطانی ممالک کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ ممالک ان فتنوں کے ساتھ کبھی سیاسی، کبھی مالی، کبھی عسکری اور کبھی ہر طرح کا تعاون کرتے ہیں یہاں تک کہ اپنے اہداف کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
لیکن تعاون کی مذکورہ بالا اقسام چونکہ واضح ہیں اور حکومتیں انہیں فوری تلاش کر سکتی ہیں اس لیے اسے بڑا خطرہ نہیں سمجھا جاتا۔
کسی حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ دو چیزیں سمجھی جاتی ہیں۔
- حکومتی اداروں میں نفوذ
- حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ
آج کل نفوذ کی سیاست کو بہت اہم سمجھا اتا ہے، اس لیے فتنہ گر اور ان کے معاونین پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ حکومتی اداروں میں نفوذ حاصل کر سکیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسی حکومت کے خلاف کام کر سکیں اور اپنے مذموم مقاصد پورے کر سکیں۔
اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو خلیفہ ہارون الرشید کا بیٹا مامون الرشید اگرچہ بظاہر دیندار لگتا تھا لیکن وہ اس وقت کے متکلمین سے اور معتزلی فکر سے متاثر ہو چکا تھا۔
اس کی حکمرانی کے دور میں بجائے اس کے کہ معتزلہ خوارج کا فتنہ ختم ہوتا اس میں مزید اضافہ ہو گیا اور مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کی ہی سلطنت میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔
اسی طرح عباسی حکومت کا قاضی القضاۃ قاضی ابن ابی داؤد چونکہ معتزلہ تھا اس لیے اپنے اس منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے خوارج کے فتنے کو بڑھایا اور ایک اسلامی خلافت کے بے پناہ مالی وسائل اس فتنے کی خاطر استعمال کیے اور ایک اسلامی خلافت کے پراپیگنڈہ آلات اس فتنے کی خاطر کام میں لائے۔
تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور ذمہ داران کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی حکومت کے تمام اداروں کو سخت نگرانی میں رکھیں تاکہ فتنہ گر کسی حکومت کے وسائل اس کے خلاف استعمال نہ کر سکیں۔
داعش کی بھی کوشش رہتی ہے کہ اسلامی ممالک کے اداروں میں نفوذ حاصل کر لے اور اس مقصد کے حصول کے لیے مغرب انہیں تمام وسائل مہیا کرتا ہے، افغانستان کے عوام کی ذمہ داری یہ ہے کہ جہاں بھی فتنہ گر کھڑے ہوں ان کے بارے میں حکومت کو اطلاع کریں اور حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ مجرمین پر کسی طرح کا بھی رحم نہ کیا جائے اور مقدس دین اسلام کی روشنی میں انہیں ایسی سزا دی جائے جس سے دیگر کو عبرت حاصل ہو۔
جاری ہے۔۔۔!