امت مسلمہ کی تاریخ میں ہمیشہ کچھ گروہ، تحریکیں اور جماعتیں اسی امت کے اندر سے ابھری ہیں اور انہوں نے خود کو سچا حامی، اسلام کا پیروکار اور دینِ الٰہی کا علم بردار قرار دیا ہے۔
ان میں سے کچھ گروہ اور تحریکیں اپنے دعووں پر ثابت قدم رہیں اور ان کے دعوے اور عمل کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا، لیکن کچھ دیگر نے امت کے عام ذہنوں کو دھوکہ دینے کے لیے کھوکھلے نعروں کا سہارا لیا اور ان کے دعووں اور عمل کے درمیان زمین و آسمان کا فرق رہا۔
چونکہ موجودہ دور میں بھی مختلف گروہ اور تحریکیں رنگ برنگے جھنڈوں کے ساتھ سامنے آئی ہیں اور ہر ایک حقیقی اسلام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتا ہے اور مسلمانوں کو اپنی طرف دعوت دیتا ہے، اس لیے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مضامین کے ایک سلسلے میں موجودہ دور کے سب سے بدنام گروہ (داعش) کے دعووں اور عمل کے درمیان موجود اس دوری کو واضح کیا جائے جو اس گروہ کے اسلامی نعروں اور اس کے کرتوتوں کی کڑوی حقیقتوں کے درمیان موجود ہے۔
داعشی خوارج انہی گروہوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنے ناپاک وجود کے آغاز سے لے کر اب تک ہمیشہ کوشش کی کہ اسلامی نعروں اور بظاہر خوبصورت لیکن باطن میں زہریلی باتوں کے ذریعے امت مسلمہ کو دھوکہ دے کر بالخصوص نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کریں۔
اسی وجہ سے، مضامین کے اس سلسلے کی ہر قسط میں ہم خوارج کے ایک خالی نعرے کو لیں گے اور ان کے دعووں اور عمل کا موازنہ کریں گے تاکہ یہ واضح ہو کہ کس طرح اس گروہ نے دینی نعروں کے استعمال سے خود کو حق پرست دکھانے کی کوشش کی، لیکن عملاً امت مسلہ کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا۔
اس گروہ نے نوجوانوں کے دینی جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں خاندان، معاشرے اور اسلام کی صراطِ مستقیم سے الگ کیا اور ایسی راہ پر ڈال دیا جو نہ صرف ان کی تباہی کا باعث بنی بلکہ اس نے امت مسلمہ میں فتنے کی آگ بھی بھڑکا دی۔
آج کے خوارج نے اپنے اسلام کے قرونِ اولیٰ کے اسلاف کی طرح، ظاہری دینداری کو اپنا کر سادہ لوگوں کو شکار کیا اور آیات و احادیث سے بھرے ظاہر کے پیچھے عملی طور پر ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جو اسلام کے لیے کوئی فائدہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس کا نتیجہ مسلمانوں کی ہلاکت، مسلم ممالک کی تباہی اور دین دشمنوں کے اہداف کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔
بلا شبہ، اس گروہ کی سرگرمیوں پر تھوڑا سا غور کرنے سے بخوبی سمجھ آ جاتا ہے کہ ان کی دشمنی عالمی طواغیت سے نہیں، بلکہ مومنین اور اہل قبلہ سے ہے، جن کی صرف ان کے باطل نظریے کی مخالفت کے جرم میں تکفیر کی گئی اور ان کا خون حلال سمجھا گیا۔
درحقیقت وحدت، جہاد، خلافت اور شریعت کے نعرے صرف خوارج (داعش) کے رہنماؤں کے سیاسی مقاصد اور اقتدار تک رسائی کے لیے ایک نقاب تھے اور بس۔
یہی منافقانہ حرکتیں بالآخر اس بات کا باعث بنیں کہ داعش اہل سنت و الجماعت کے لیے نفرت کا باعث بن گئی اور تمام مذاہب کے کبار مسلم علماء نے مل کر اس گروہ کے خلاف مؤقف اختیار کیا اور اس کے انحراف کا صراحت کے ساتھ اعلان کیا۔
آخر میں، امید ہے کہ اس طرح کے سلسلے کی تحریریں مسلم نوجوان نسل کو مزید بصیرت حاصل کرنے پر راغب کریں گی تاکہ وہ اس قسم کے فتنوں کے سامنے ڈٹ جائیں اور ایسے گروہوں کی بظاہر خوبصورت لیکن حقیقت سے خالی دینی باتوں سے دھوکہ نہ کھائیں۔