اس سلسلے کی پہلی قسط میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ اس مضمون میں ہم خوارج کے دعوؤں اور ان کے عمل کا تقابلی جائزہ لیں گے، اور اللہ جل جلالہ کی مدد سے ان کے جھوٹے دعوؤں کی حقیقت اپنے معزز قارئین کے سامنے واضح کریں گے۔
پوری امتِ مسلمہ پر یہ بات بالکل واضح اور روشن ہوچکی ہے کہ داعشی خوارج کا سب سے خطرناک ہتھیار مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور انہیں باطل صف میں شامل کرنے کے لیے قرآن کریم کی آیات اور نبوی احادیث کی صورت میں خوبصورت اور جذباتی تقریریں ہیں۔ یہ تقاریر بظاہر جہاد، شہادت اور خلافت جیسے پاکیزہ مفاہیم سے مزین ہوتی ہیں، مگر ان دھوکہ دہ الفاظ کے پیچھے حقیقت میں انتہاپسندی، مسلمانوں کی تکفیر، بے گناہوں کا خون بہانا اور امت کے حقیقی مجاہدین کی صفوں میں تفرقہ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔
جب ابو محمد العدنانی کو ’’اسلامی ریاست‘‘ (داعش کا پرانا نام، خلافت کے اعلان سے پہلے) کا ترجمان مقرر کیا گیا، تو اس نے اپنے پہلے بیان میں — جو ۱۴۳۲ھ کو رمضان المبارک میں ’’إنّ دولة الإسلام باقیة‘‘ (یقیناً اسلامی ریاست قائم ہے) کے عنوان سے جاری ہوا؛ اس میں امارتِ اسلامی کا ذکرِخیر کیا اور مظلوم مسلمانوں کو ہجرت کی دعوت دی، تاکہ وہ ملا عمر رحمہ اللہ کے جھنڈے تلے جمع ہوں۔
اس نے اس وقت کہا تھا:
’’إلى جميع المجاهدين عامةً في شتّى بقاع الأرض, ولا يسعني إلا أن أخص منهم الجبل الأبيّ الأشم والبحر الحمي الخِضم, بأبي هو وأمي, الشيخ الفاضل الملا عمر مع بشتونه والطالبان, صخرتنا القوية وقلعتنا العصية. يا من ظُلِمتَ ارحل إلى الملا عمر — وقفاته عدلٌ ورشدٌ نادرُ. بشتونه والطالبان حماتنا — قد عاهدوا الرحمن أن لن يغدروا. لن يُخذل الإسلام لا — ما دامت الأرواح فيهم أو دماءٌ تقطرُ.‘‘
ترجمہ: دنیا بھر میں موجود تمام مجاہدین کو میں عام پیغام دیتا ہوں۔ اور میں خصوصیت سے اس بہادر اور غیرتمند پہاڑ اور اس گہرے اور محفوظ سمندر، میری جان اور ماں باپ اس پر قربان ہوں، محترم شیخ ملا عمر، پشتونوں اور طالبان کو مخاطب کرتا ہوں — جو ہماری مضبوط چٹان اور ناقابل شکست قلعہ ہیں۔ اے وہ شخص جس پر ظلم ہوا ہے، ملا عمر کے پاس چلے آؤ — ان کا طرزِ قیادت عدل و دانائی کا نادر نمونہ ہے۔ پشتون اور طالبان ہمارے محافظ ہیں — انہوں نے اللہ متعال سے عہد کیا ہے کہ وہ کبھی خیانت نہیں کریں گے۔ اسلام کو کبھی شکست نہیں ہوگی — جب تک ان میں روحیں باقی ہیں یا ان کے جسموں میں خون کا ایک قطرہ بھی رواں ہے۔
یہ واضح بیانات داعش کے ابتدائی مؤقف کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں، خصوصاً امارتِ اسلامی کے بارے میں، اُس وقت جب انہوں نے ابھی تک اپنا خونی وجنونی خلافتی منصوبہ ظاہر نہیں کیا تھا اور ان کے قدم افغانستان کی سرزمین پر نہیں پڑے تھے۔ لیکن یہ مؤقف، جو بظاہر بڑے دینی واسلامی نعروں سے مزین تھا، بہت جلد انہی نعروں کے ساتھ ٹکرا گیا اور مکمل طور پر بدل گیا۔
جی ہاں! اگرچہ ابتدا میں داعشی خوارج، امارتِ اسلامی کو اسلام کا حقیقی نمائندہ سمجھتے تھے، مگر جب ان کے ناحق مطالبات امارتِ اسلامی نے تسلیم نہ کیے، تو انہوں نے امارت کے مجاہدین کو کافر کہنا شروع کیا اور ان کے خون کو حلال قرار دے دیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ان کے دعوؤں اور اعمال کے درمیان فاصلہ ’’آسمان سے زمین‘‘ تک جا پہنچا۔ وہی لوگ جو کل تک امارتِ اسلامی کو اسلام کا ناقابلِ تسخیر قلعہ قرار دیتے تھے، آج اسی امارت کو اپنا سب سے بڑا ہدف بنا چکے ہیں۔ انہوں نے امارت کے مجاہدین کو مرتد، منافق اور اسلام کا دشمن قرار دیا — صرف اس وجہ سے کہ ان مجاہدین نے ان کے پسندیدہ جھنڈے تلے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔
یہ اچانک اور متضاد تبدیلی ایک تلخ اور سبق آموز حقیقت کو واضح کرتی ہے: کہ داعشی خوارج نہ کوئی ثابت قدم عقیدہ رکھتے ہیں، نہ کوئی شرعی اصول یا معیار؛ ان کے نزدیک جو شخص ان سے بیعت کرے، وہی مسلمان اور مجاہد ہے؛ اور جو بیعت سے انکار کرے، وہ کافر اور قتل کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک نہایت خطرناک راستہ ہے، جس نے خوارج کی پرانی صورت کو ایک نئی شکل میں دوبارہ زندہ کر دیا ہے، اور اسلام و امتِ مسلمہ کو ایک سنجیدہ خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
اسی لیے، اس گمراہ فرقے کی اصل حقیقت کو پہچاننا اور ان کے واضح تضادات کو بے نقاب کرنا، اہلِ بصیرت اور امت کے اہلِ درد کے لیے ایک شرعی ذمہ داری اور معاشرتی ضرورت ہے۔