داعشی گروہ کے تمام تر اقدامات اوراعمال کسی معروف قانونی بنیاد پر قائم نہیں ہیں، ان کا ہر عمل من گھڑت اور خود ساختہ اصول پر قائم ہے، یہ لوگ اپنے مفادات کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، ان کے پاس اپنے اعمال و کاروائیوں کے جائز ہونے کی کوئی منصوص یا عقلی دلیل کی بجائے ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں، یہ گروہ مطلق العنانیت کی حدوں کو پار کر چکا ہے۔
داعشی اپنی آمدنی حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے غیر قانونی، غیرانسانی اورغیر اخلاقی کام کرتے ہیں اور وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کس طریقے کو اپنا کر اپنی آمدن میں اضافہ کیا جائے، یہ تمیز کیے بغیر آیا وہ طریقے جائز بھی ہیں یا نہیں!
پیسے کمانے کا ایک ناجائزاورغیر قانونی طریقہ لوگوں کو اغوا کرکے ان کی رہائی کے بدلے معصوم عوام سے پیسے بٹورنا ہے۔
داعشی افراد جن علاقوں میں رہتے ہیں، اس علاقے کے امیر و مالدار خاندانوں کے مردوں، عورتوں اور بچوں کے علاوہ دیگر مذاہب اور مسالک کے افراد، میڈیا کے صحافیوں، بین الاقوامی سفارت کاروں اور دیگر اہم لوگوں کو اغوا کرتے ہیں اور پھر خفیہ طور پر رکھتے ہیں، ان کے خاندانوں اور اداروں کو فون کرتے ہیں اور بدلے میں پیسے مانگتے ہیں۔
’دولت اسلامیہ: ڈیجیٹل خلافت‘ نامی کتاب میں لکھا ہے: داعش نے ۲۰۱۴ء میں لوگوں کے اغوا کے ذریعے تقریباً ۲۰ ملین ڈالر حاصل کیے ہیں۔
(Islamic State: The Digital Caliphate’ by Abdel Bari Atwan’)
کہا جاتا ہے کہ داعش عالمی سطح پر اغوا کاری میں ملوث ہے، جن علاقوں میں داعشی رہتے ہیں، وہاں اغوا کاروں کو تربیت دینے اور انہیں اغوا کرنے کے گُر سکھانے کے لیے مستقل ادارے اور اساتذہ موجود ہیں، جہاں وہ اپنے شاگردوں کو جدید اور تکنیکی آلات کے استعمال کی ذریعے سکھاتے ہیں۔
بعد میں یہی تربیت یافتہ لوگ داعش کی ایک شاخ کے طور پر کام کرتے ہیں اور بہت سے اہم افراد کواغوا کر کے داعش کے لیے بہت زیادہ آمدنی جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کا دوسرا اہم مقصد متعلقہ علاقے میں عدم تحفظ پھیلانا اوروہاں کے مکینوں کو دوسرے علاقوں میں جانے پر مجبور کرنا ہے، اگر وہ امیر لوگ ہوتے ہیں تو ان علاقوں سے چلے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں اس علاقے پر انتہائی منفی معاشی اثرات مرتب ہوتے ہیں اوراس طرح پورا خطہ رفتہ رفتہ امیر لوگوں اور سرمایہ کاروں سے خالی ہوتا جاتا ہے اور آخر کار داعش کے لیے ایسے علاقوں میں داخل ہونا، وہاں آمد و رفت آسان ہوجاتی ہے۔
جن علاقوں میں داعش کا وجود نہیں ہوتا وہاں داعش کے لوگ آتے ہیں اور متعلقہ علاقے کے سابق اغوا کاروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ رابطے کرتے ہیں، ان سے تعاون کرتے ہیں، ان کے لیے سہولت کاری کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس علاقے میں داعش کا اثرورسوخ بڑھتا جاتا ہے اور آخر کار یہ علاقہ داعش کا مرکز بن جاتا ہے۔
اس عمل سے انہیں کئی فائدے حاصل ہوتے ہیں:
ایک فائدہ یہ ہے کہ داعش علاقے میں ڈاکوؤں کے ساتھ تعاون کر کے علاقے میں داخل ہو جاتی ہے، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اپنے گروہ کے لیے اغوا برائے تاوان کے ذریعے آمدنی جمع کرتی ہے۔