- نعمان ھروی
پوری تاریخ میں افغانستان پاکستان کا خیر خواہ پڑوسی رہا ہے، ہندوستان سے جو پاکستان کی جنگیں ہوئیں، ان جنگوں میں پاکستان کو سخت اور خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن افغانستان نے اسلامی بھائی چارے اور ہمسائیگی کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان مواقع سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کے ساتھ اپنے تاریخی مسائل حل کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔
سوویت یونین نے اگر افغانستان پر حملہ کیا، تو گرم پانیوں تک رسائی کے بہانے پاکستان میں بھی کمیونسٹ انقلاب لانے کا ارادہ رکھتا تھا، اور اس کی خواہش تھی کہ پورے پاکستان یا اس کے کچھ حصے پر قبضہ کر لے۔
امریکہ نے اگر افغانستان پر حملہ کیا، تو اس کا دوسرا ہدف پاکستان اور پاکستان کے ایٹمی وسائل تھے۔
لیکن دونوں سپر پاورز کے خلاف افغانوں کی جدوجہد نے پاکستان کی بھی حفاظت کی۔
امارت اسلامیہ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کوشش کی کہ پاکستان اپنے مسلح مخالفین کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کر لے، لیکن بعض بیرونی مداخلتوں کی وجہ سے پاکستانی فوج میں (جس کے کنٹرول میں پاکستان کی خارجہ پالیسی ہے) ایک ایسی عسکری لابی اقتدار میں آ گئ جو مذاکرات کے ذریعے مسلح مخالفین کے ساتھ مسائل کے حل کی سخت مخالف تھی اور افغانستان اور امارت اسلامیہ کے حوالے سے بھی منفی رائے کی حامل تھی۔
یہ عسکری لابی پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی ان پالیسیوں کی بھی مخالف تھی کہ جو ترکی، انڈونیشیا، ملیشیا، ایران اور بعض دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے اسلامی ممالک کو موجودہ مغلوب سیاسی اور اقتصادی صورتحال سے باہر نکالنا چاہتا تھا۔
افغانستان میں حکمران نظام نے پاکستان میں مسائل کے حل میں مدد کے لیے بلا امتیاز بہت سے اقدامات کیے، لیکن یہ عسکری لابی ان اقدامات کو بالکل خاطر میں نہ لائی، بلکہ اس کے جواب میں افغان مہاجرین کے ساتھ بد سلوکی، ان کا جبری اخراج، تجارت میں رکاوٹیں کھڑی کر کے اور بین الاقوامی سطح پر ناروا پالیسی اپنا کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ کر لیے۔ اور اسی پر بس نہیں کی بلکہ تمام عالمی روایات کو پامال کرتے ہوئے افغانستان کی سرزمین میں گھس کر بمباری کی۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کے اصلی محرکات پاکستان کی اس عسکری لابی کی من مانیاں اور ناروا اقدامات ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر پاکستانی عوام، سیاست دانوں اور نءی سویلین حکومت نے اس لابی پر مہار نہیں ڈالی تو خود پاکستان کو ان کے غلط اقدامات کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔