یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے امت ۷۳ فرقوں میں بٹ گئی، مرجئہ، جہمیہ، قدریہ، خوارج، معتزلہ، روافض، اہل السنۃ والجماعۃ و دیگر کسی بھی گروہ سے پوچھیں کہ رسول اللہ کی سیاست پر کون عمل پیرا اور کاربند ہے؟
ان میں سے ہر گروہ دعویٰ کرے گا کہ وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست پر صحیح اور سچے طور پر کاربند ہے اور اس عمل کو مزید ترقی دینے میں وہی سب سے آگے ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست کو سیکھنا پڑے گا جس کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا کہ اس زمانے کے لوگ یا گروہ مطلوبہ معیار پر پورا اترتے ہیں یا نہیں؟ اور کون ہیں جو صحیح طور پر سیاستِ رسول پر عامل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست تو ایسی تھی کہ جو کفار و منافقین آپ علیہ السلام کی دوستی کا دم بھرتے، آپ ان کو قتل نہ کرتے، اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو ان منافقین میں سے ہر ایک کا نام بتا دیا تھا، مگر ظاہری طور پر انہیں عام لوگوں میں صحابہ کے طور پر جانا جاتا تھا، جس کی وجہ سے آپ ان سے تعرض کرنے سے گریز کرتے۔
مگر ہمارے زمانے کے خوارج (داعشیوں) نے ایسے افراد کو قتل کیا جو دن رات قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں لگاتے، نفاق تو دل کا عمل ہے جس پر سوائے اللہ کے کوئی مطلع نہیں، رہا ظاہر تو یہ حضرات مسلمان اور مجاہد کی سی صورت وسیرت سے مزین تھے اور تمام کفری اقوال وافعال سے بری و بیزار تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی بیک وقت دو جگہ محاذ نہیں کھولا، جب آپ علیہ السلام نے مدینہ ہجرت کرلی، وہاں اہل کتاب سے صلح جبکہ مشرکین سے جنگ شروع کردی، اور جب مشرکین سے صلح کی تو اہل کتاب کو ملک بدر کردیا۔
مگر اس زمانے کے خوارج (داعشیوں) نے اپنی انتہا پسند سوچ و فکر کی بنیاد پر تمام کفار کی توجہ حقیقی اور مخلص مجاہدین کی طرف مبذول کرائی، اگرچہ در پردہ کچھ اور ہی چل رہا تھا، انہوں نے مسلمانانِ عالم کو عموما اور مجاہدین کو خصوصا سیاست و تمدن سے ناواقف متعارف کروایا۔
اس سب کے باوجود بقول آپ علیہ السلام "ہر زمانے میں ایسا گروہ رہے گا جو ملامت گروں کی ملامت کی پرواہ کیے بغیر دینِ حق کے احکام پر عمل پیرا ہوگا۔”
جس کی زندہ مثال امارت اسلامیہ کی ہمہ جہت پالیسیاں ہیں۔