رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ آپ علیہ السلام کی وہ خصوصیت تھی جو انسانیت کے لیے تا ابد بہترین رہنما اصول رہیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف گھریلو زندگی میں بلکہ ہر قسم کی سماجی زندگی میں بے مثال اخلاق کے مالک تھے۔ اس حوالے سے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی پر مختصر نظر ڈالیں گے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«ما کانَ أَحَدٌ أَحْسَنَ خُلُقًا مِن رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؛ ما دَعَاهُ أَحَدٌ مِن أَصْحَابِهِ وَلا مِن أَهْلِ بَيْتِهِ إِلَّا قَالَ: لَبَّيْكَ، فَلِذَٰلِكَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَىٰ: ﴿إِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ [القلم: ۴] «مصنف عبد الرزاق» (9/ 176) «مصنف ابن أبي شيبة» (14/ 170) «مسند أحمد» (40/ 37)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی اچھے اخلاق کا حامل نہیں تھا، جب بھی آپ کو آپ کے صحابہ یا اہل بیت میں سے کوئی بلاتا، آپ فوراً جواب دیتے "میں حاضر ہوں”۔ اسی لیے اللہ جل جلالہ نے آپ کو مخاطب فرمایا: ﴿إِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ یعنی بے شک آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مزید فرماتی ہیں:
«عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَادِمًا لَهُ وَلَا امْرَأَةً»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے خادم یا اپنی بیویوں (امہات المؤمنین) میں سے کسی پر کبھی بھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر کسی کے ساتھ حسن سلوک تھا اور ہر شخص آپ کے اخلاق حسنہ کا گرویدہ تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«عن الأسود بن يزيد: سألت عائشة رضي الله عنها: ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يصنع في البيت؟ قالت: كان في مهنة أهله، فإذا سمع الأذان خرج. «صحيح البخاري»(5/ 2052)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے افراد کی خدمت میں مصروف رہتے تھے، لیکن جب آپ اذان سنتے تو نماز ادا کرنے کے لیے تشریف لے جاتے، آپ گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھریلو کاموں میں مدد کرتے اور ایک گھریلو عام فرد کے طرح اپنا کردار ادا کرتے تھے۔
بعثت کے دسویں سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اور آپ کی اہلیہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کو "عام الحزن” (غم کا سال) کہا؛ آپ ان کی وفات پر بے حد غمگین تھے، آپ رشتے داری نبھانے کو بہت ضروری سمجھتے تھے اور آپ ہمیشہ اس پر زور دیتے تھے۔
«عام الحزن وهو العام العاشر من بعثته صلى الله عليه وسلم، فقد توفيت فيه زوجته خديجة بنت خويلد رضي الله عنها، وتوفي فيه عمه أبو طالب»(فقه السيرة النبوية مع موجز لتاريخ الخلافة الراشدة، ص97)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو ان کے غم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور فرمایا:
إن العين تدمع والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضي ربنا وإنا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون.
ترجمہ: آنکھیں اشکبار ہیں، دل غمزدہ ہے، اور ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے رب کو پسند ہے، اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ علیہ السلام کو بہت محبوب تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے، اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
« إنما فاطمة بضعة مني، يؤذيني ما آذاها».(صحيح مسلم:7/ 141)
ترجمہ: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو چیز اسے تکلیف دیتی ہے، وہ مجھے تکلیف دیتی ہے۔
نتیجہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان کے افراد، بچوں، بیویوں اور سب کے ساتھ محبت رکھتے تھے اور ان کے ساتھ محبت، شفقت اور مہربانی سے زندگی گزارتے تھے؛ ان کے حقوق کا خیال رکھتے تھے، اور وہ بھی ان سے محبت کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے اہلِ خانہ سے بدزبانی اور حقارت کے کلمات نہیں کہے، آپ اپنے گھر کے کاموں میں ان کی مدد کرتے اور بے مثال مہربان فرد کے طور پر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے تھے، آپ دوسروں کو بھی اچھے اخلاق و حسنِ سلوک سے زندگی گزارنے کی تلقین کرتے تھے۔