دنیا میں ہر چیز کا کوئی نہ کوئی بانی ہوا کرتا ہے اور حدیث پاک میں بھی آتا ہے کہ دنیا میں جس کسی نے جو بھی بنیاد رکھی چاہے وہ کسی بھلائی کے کام کے لیے ہو یا برائی کے لیے، روزِ قیامت اس کا سردار اسے ہی مانا جائے گا۔
مثلاً قاتلوں کے بارے میں آتا ہے کہ جس نے دنیا میں ناحق قتل کیا ہو گا وہ قابیل کے گروہ میں، جو ان کے آگے آگے سور پر سوار ہو گا، جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
اسی طرح نیک اعمال کا پیشوا اپنی اچھی سنتوں کے باعث اپنے پیروکاروں کا سرخیل سمجھا جائے گا۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کے ساتھ جنگ (جہاد) اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کو قتل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اس لیے وہ تاریخ میں ایسے پہلے شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں کہ جس نے خوارج کے خلاف جنگ کی اور قیامت تک جو بھی اپنے زمانے میں خوارج کے خلاف اس لیے جنگ (جہاد) کرے گا کہ وہ باطل ہیں، اسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا راہرو سمجھا جائے گا۔
دورِ فتن میں، الحمد للہ، یہ افتخار ایک بار پھر امارت اسلامیہ افغانستان کے حصے میں آیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی راہ پر چلے اور خوارج العصر (داعش) کے خلاف جنگ کرے اور انہیں ختم کرے۔
ہمیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ حکم ہوا ہے کہ اس وقت تک جنگ (جہاد) کرتے رہو جب تک کہ فتنہ ختم نہیں ہو جاتا اور پورا کا پورا دین اللہ کےلیے خالص نہیں ہو جاتا۔
اسی لیے ہم خود کو اس بات کا مکلف گردانتے ہیں کہ خوارج العصر (داعش) کے خلاف تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے انہیں ختم کر دیں تاکہ امت مسلمہ کے مابین موجود یہ عظیم فتنہ ختم ہو جائے اور اور امت کو اس عذاب سے نجات حاصل ہو جائے۔
اسی لیے ضروری تھا کہ خیر القرون میں ایک سپہ سالار ہوتا تاکہ اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل ہو سکتا کہ:
فعليكم بسُنَّتِي وسنةِ الخلفاءِ الراشدينَ
ترجمہ: تم پر میری سنت پر عمل کرنا لازم ہے اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا
الحمد للہ ہم بھی رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہیں، کیونکہ ہم ٰٰ”اہلِ سنت” ہیں اور اسی طرح ہم صحابہ کرام بالخصوص خلفائے راشدین کی سنت پر عمل پیرا ہیں کیونکہ ہم "والجماعت” بھی ہیں۔