دینِ اسلام کی ابتدا سے لے کر موجودہ دور تک ابطالِ امت نے اپنی جانوں کو نچھاور کر کے اسلام کے مقدس دین کے قیام و نشر واشاعت کے لئے جدوجہد کی ہے اور عظمت و فتوحات کا یہ سلسلہ آج تلک جاری ہے۔ اس راہ میں ہزاروں بہادر اورمجاہد جوانوں نے اپنی زندگیوں کو اسلام کی حفاظت کے لئے قربان کیا، جن میں سے ایک شہید انجینئر ولی الرحمن ریحان بھی ہیں۔
شہید انجینئر ولی الرحمن ریحان نے ۱۹۹۲ء میں صوبہ میدان وردگ کے ضلع جغتو کے بلند بابا خیل گاؤں میں حاجی عبدالقدیر کے خانوادے میں آنکھ کھولی۔
۱۔ تعلیم:
شہید ولی الرحمن ریحان نے اپنی ابتدائی دینی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد میں مولوی صاحب حبیب الرحمن حماد سے حاصل کی اور ساتھ ہی غازی محمد جان خان کے ہائی اسکول میں عصری علوم کی تعلیم بھی شروع کی۔
ہائی اسکول سے فراغت کے بعد انہوں نے داخلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور کابل میں واقع کندهار یونیورسٹی کی انجینئرنگ فیکلٹی کے انرجی شعبے میں داخلہ لیا۔ اس امتحان میں کامیابی کے ساتھ ہی انہوں نے امریکی حملہ آوروں، ملکی غلاموں اور دیگر فتنہ گروں کے خلاف جہاد میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔
چونکہ شہید ولی الرحمن ریحان اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے اورشہادت حاصل کرنے کی تمنا رکھتے تھے، اس لیے وہ ہمیشہ یونیورسٹی کی چھٹیوں میں مجاہدین کے ساتھ مل کر دشمن کے خلاف محاز میں شرکت کرتے اور انہوں نے اپنی جہادی صلاحیتوں کی بدولت دشمن کو کئی بار بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔
انہوں نے وردگ کے جغتو، چک، سیدآباد اور جلگہ اضلاع میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر کئی کامیاب گوریلا آپریشنز میں حصہ لیا اور ایک بہادر مجاہد کے طور پر صوبے کے حکام کا اعتماد حاصل کیا، وہ یونیورسٹی کا چار سالہ تعلیمی مرحلہ مکمل نہیں کر پائے تھے کہ اس دوران وردگ، لوگر اور غزنی صوبوں میں امریکی حملہ آوروں اور صفر یک، صفر۲ نامی داخلی غلاموں کے اداروں نے رات کے آپریشنز شروع کر دیے۔
ان آپریشنز کے نتیجے میں درجنوں عام شہری، خواتین اور بچے شہید ہو گئے، سینکڑوں گھر تباہ ہو گئے اور لوگ شدید مشکلات اور مصیبتوں کا شکار ہو گئے۔ دین و وطن کے دشمنوں نے مظلوم قوم پر ظلم کی انتہاء کردی اور دشمن کے وحشیانہ چھاپوں اور مظالم کو مزید برداشت کرنا ممکن نہ رہا، یہی وجہ تھی کہ ولی الرحمن ریحان نے یونیورسٹی سے کچھ عرصے کے لیے رخصت لے لی اور وردگ میں عملی طور پر ببانگ دہل جہادی خدمات کا آغاز کردیا۔
شہید ولی الرحمن ریحان نے بہت کم عرصے میں امارتِ اسلامی کی صفوں میں ایک مؤثر جہادی جدوجہد کی، اس جدوجہد کا ایک اہم مرحلہ اس وقت آیا جب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشرقی افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں داعش کے تکفیری عناصر کے خلاف جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوئے۔
۲۔ ننگرہار میں شہید کی جہادی سرگرمیاں:
شہید ولی الرحمن ریحان نے ننگرہار صوبے میں فتنہ گر داعشی خوارج کے خلاف چھ ماہ سے زائد عرصے تک اپنی جہادی جدوجہد جاری رکھی۔ اس دوران انہوں نے میدان وردگ کے مجاہدین کے ساتھ مل کر ننگرہار صوبے میں داعشی خوارج کو شکست فاش سے دوچار کیا اور اکثرعلاقوں اور اضلاع کو ان کے شر سے پاک کردیا۔
۳۔ شہادت:
راہ اسلام کا یہ بہادر مجاہد راہرو آخرکار ۱۲ فروری ۲۰۲۱ء کو جمعے کی مبارک رات، ننگرہار صوبے کے شیرزاد ضلع کے زاوہ علاقے میں، داعشی خوارج کے ساتھ ایک کھلی جھڑپ میں داعشی حملہ آوروں کے ہاتھوں پہلے زخمی ہوئے پھر ایک ڈرون حملے میں شہادت کے عظیم مرتبے پرفائز ہوئے۔
نحسبه کذالک والله حسیبه!
نوٹ:
داعشیوں اور امریکیوں کی مشترکہ جنگ کی زندہ مثال ریحان کی شہادت ہے، جس میں پہلے وہ داعشیوں کے ساتھ براہ راست لڑائی میں شدید زخمی ہوئے، پھر امریکی حملہ آوروں کے ڈرون حملے میں شہادت کا شرف حاصل کیا۔
شہید ولی الرحمن ریحان تقویٰ، دیانت اور بہترین اخلاق کے حامل جوان تھے، جنہیں اپنے علاقے کے لوگوں کی طرف سے بے حد عزت اور احترام حاصل تھا۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ پھیلی رہتی تھی اور وہ اپنے جہادی ساتھیوں کے درمیان اتحاد اور اطاعت کا ایک بے مثال نمونہ تھے۔
صوبہ غزنی کے مرکزغزنی شہر اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں انہوں نے اشرف غنی حکومت کے درجنوں ظالم اور قاتل فوجیوں کو، جنہوں نے عام عوام کی زندگی کو عذاب بنا رکھا تھا، کیفرِ کردارتک پہنچایا۔ اسی طرح وہ اکثر صوبائی تشکیلات میں گروپ کے امیر کی حیثیت سے متحرک رہے اور کئی بار دشمن کے شدید آپریشنز اور چھاپوں کا سامنا کیا، وہ پوری زندگی ایک سچے اور مطیع مجاہد کی طرح شہادت تک اپنے جہادی مؤقف پر ثابت قدم رہے۔