شہید محمد عمر ولد حاجی وزیر ولد مولوی حاجی مینک نے ۱۹۹۸ء میں صوبہ لوگر کے صدر مقام کے قریب گاؤں دشتی بہاری میں اس فانی دنیا میں آنکھ کھولی۔
شہید رحمہ اللہ نے کم عمری میں ہی دین کی خاطر مدرسے اور محازوں کا رخ کیا، وہ گرمیوں میں جنگ کے میدان اور سردیوں میں حصولِ تعلیم میں مشغول رہتے۔
۲۰۱۸ء میں صوبہ ننگرہار کے صدر مقام میں سیاف فامیلی کے مدرسے جامعہ محمدیہ میں داخلہ لیا، لیکن ابھی اچھی طرح دروس شروع بھی نہ ہوئے تھے کہ ان پر جذبۂ جہاد غالب آ گیا اور تین دیگر ساتھیوں کے ساتھ پیدل ہی جہادی تشکیل کے لیے روانہ ہو گئے لیکن راستے میں ضلع چپرہار کے قریب داعشی خوارج نے انہیں گرفتار کرلیا۔
ایام اسیری:
زندانی شہید اپنےآنکھوں دیکھے حالات کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
"داعش اور امریکی افواج کے چند ایک کام اور عادات بالکل ایک جیسی تھیں، ہمیں گرفتار کرنے کے ساتھ ہی مارنا پیٹنا شروع کردیا، تشدد کے دوران وہ چھوٹے بڑے کی تمیز نہ کرتے، ہمارے ساتھ ان کا برتاو انتہائی برا تھا، خوراک میں ہم پر کافی سختی کی جاتی، کھانا یا تو بہت ہی کم ہوتا یا پھر دو تین ہفتوں کی روکھی سوکھی روٹی دیتے، جو کسی طور بھی کھانے کے قابل نہ ہوتی، مختصر یہ کہ ہمارے ساتھ ان کا رویہ انتہائی غیر انسانی تھا۔
میں نے باگرام جیل کے قیدیوں سے بھی سنا تھا کہ کھانے پینے میں امریکی کافی تکلیف دیتے تھے، ان کی تحقیق کا طریقہ کار بھی ہوبہو ویسا ہی تھا جیسے امریکی باگرام جیل میں کرتے تھے، ان کی طرح یہ لوگ بھی آدھی رات کو آتے اور ہمیں تفتیش کے لیے لے جاتے اور پھر ہم سے طرح طرح کے سوال پوچھتے، لیکن ہم بھی ان کے تمام سوالات کے جواب میں ایک ہی بات کرتے کہ ہم مدرسے کے طالب علم ہیں۔
تفتیش کرنے والے اکثر غیر ملکی تھے، ان میں روسی، ازبک اور پنجابی شامل تھے، جبکہ افغانی بہت کم تھے۔
لیکن ہمارے ساتھ جو سب بڑی زیادتی کی گئی وہ یہ تھی کہ مسلسل دس دن رات ہمیں نماز ادا نہ کرنے دی گئی، اس دوران ہم اشاروں سے نماز پڑھتے تھے۔
پھر ہمیں کہاگیا کہ اب تمہارے لیے شرعی دورہ شروع کیاجائے گا، جب ان کی اصطلاح میں شرعی دورہ شروع ہوا، تو صبح دس منٹ، دن میں دس منٹ اور عصرکے وقت ہوتا لیکن یہ نام نہاد دورہ صرف احادیث کے متن اور چار ائمہ مذاھب کے رد و قدح پر مشتمل تھا۔
چھ ماہ کی قید میں کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ہمیں لال کپڑے پہنا دیے جاتے تاکہ ہمیں ذبح کر کے ہمارے سر کاٹ ڈالیں، لیکن پھر معاملہ ٹل جاتا۔
حیران کن بات یہ تھی کہ آخری دنوں میں ان پر مسلسل ایسی بمباری شروع ہوگئی کہ ایک بار ہمارے جیل کے کمرے کی آدھی دیوار بھی گرگئی۔
لیکن جب میں نے ان کی قید سے رہائی پائی اور ان کی شکست کی اطلاع ملی، تو بعد میں میں جان گیا کہ جو لوگ ان پراپیگنڈے سے متاثر ہوکر آئے وہی بے خبر سادہ لوگ ان بمباریوں کا شکار ہوئے، اور اسی چیز کو وہ دیگر سادہ لوگوں کوبھرتی کرنے کے لیے بطور دلیل پیش کرتے۔
چھ ماہ کی اسیری کے بعد میرے گھر والوں نے ضلع چپرہار آکر وہاں کے عمائدین کو ہمارے پیچھے بھیجا، جو ہمارے ثالث بنے اور بالآخر ہر فرد کے بدلے ایک لاکھ پچیس ہزار (۱۲۵،۰۰۰) افغانی لے کر داعش نے ہمیں رہا کردیا۔”
شہید زندانی کے ایک ساتھی نے بتایا:
"مدرسہ حقانیہ کے پاس ہمارا کمرہ تھا، آدھی رات کو گریہ وزاری کی آواز میرے کانوں پر پڑی، میں نے سر اٹھایا، دیکھا تو شہید زندانی بارگاہ الٰہی میں زاروقطار رو رہے ہیں اور شہادت کی دعا مانگ رہے ہیں۔”
بالآخر اللہ کی بارگاہ میں ان کی یہ تمنا قبول ہوئی اور فتح سے ایک ماہ قبل زندانی شہید اپنے دیگر دو ساتھیوں سمیت لوگر کے صدر مقام کے وزیر کلا ٹاؤن میں کمانڈوز سے دو بدو لڑائی میں شہادت کا اعلیٰ مقام پا گئے۔ نحسبہ کذلک واللہ حسیبہ
شہید زندانی کے ایک ساتھی نے ایک یاداشت کچھ اس طرح بیان کی:
"ایک رات امریکی افواج نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، اگلے دن ہم ان کی احوال پرسی کے لیے ان کے گھر گئے، وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ شہید زندانی اور ان کے چچا زاد سلطان محمد معصوم(یہ بھی لوگر کی فتح کے روز شہید ہوگئے تھے) دونوں سکون سے گھر میں بیٹھے تھے، میں نے انہیں دیکھتے ہی پوچھا: او لڑکو تمہیں امریکی اپنے ساتھ کیوں نہیں لے کر گئے؟ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے: دونوں گھر کی چھت پر سوئے ہوئے تھے، جب ہم پر چھاپہ آیا تو ہم نے اپنے اوپر آیت الکرسی کا دم کر دیا، پھر الحمد للہ آخر تک ان کا ہماری طرف دھیان نہیں گیا۔”