تعارف:
شہید ڈاکٹر فیصل مشال، ماسٹر ہمیشہ گل کے بیٹے اور شہید شیرگل کے پوتے تھے۔ وہ ۱۳۷۹ ہجری شمسی میں افغانستان کے ولایت وردگ، ضلع سیدآباد کے مملو گاؤں میں ایک جہادی، دیندار اور متقی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی گھرانہ تھا جس سے شہید شیرگل خان تعلق رکھتے تھے، جو ایک معروف مجاہد تھے۔
تعلیم:
شہید ڈاکٹر فیصل مشال نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے امام صاحب سے حاصل کی۔ ۱۳۸۶ ہجری شمسی میں وہ خالد بن ولیدؓ ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے دارالحفاظ عبداللہ ابن مسعودؓ میں قرآن کریم حفظ بھی شروع کیا۔ ۱۳۹۷ ہجری شمسی میں انہوں نے بارہویں جماعت تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد کابل میں میڈیکل کی تعلیم کا آغاز کیا۔
اخلاقی صفات:
وہ نہایت ذہین، پرہیزگار، بہادر، عبادت گزار اور ذکر الٰہی میں مشغول رہنے والے انسان تھے۔ اپنے ساتھیوں میں قابلِ اعتماد مجاہد کے طور پر جانے جاتے تھے۔
جہادی جدوجہد:
ابھی وہ جوانی کی دہلیز پر بھی نہیں پہنچے تھے، جہاد کی محبت نے ان کے دل میں گھر کرلیا۔ اپنے شہید بھائی کا خالی محاذ اُنہیں آرام دہ زندگی گزارنے کی اجازت نہ دے سکا۔ انہوں نے بھی دیگر بہادر نوجوانوں اور شہید نافذ تقبله الله کے کاروان کے ساتھیوں کی طرح اپنی زندگی کا رخ جہاد کی طرف موڑا اور کم عمری میں ہی اپنی جہادی جدوجہد کا آغاز کیا۔
خاندانی قربانیاں:
ان کے بڑے بھائی کا کہنا ہے: اُس وقت ان کی عمر بہت کم تھی، شاید پندرہ سال کے بھی نہ تھے، جبکہ ہمارا خاندان پہلے ہی چار شہداء پیش کر چکا تھا۔ ان میں تین چچا زاد بھائی اور ایک سگا بھائی شامل تھا:
۱۔ شہید صفت اللہ حقیار، جو قندھار کے تعلیمی ادارے میں پڑھنے کے لیے کامیاب ہوئے تھے۔
۲۔ شہید عظمت اللہ عظیمی، جو بارہویں جماعت کے طالبعلم تھے۔
۳۔ شہید عنایت اللہ ہمت، جو ہلمند میں زراعت کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
۴۔ شہید لطف اللہ مشال، جو قندھار یونیورسٹی کے اکنامکس فیکلٹی کے تیسرے سال کے طالبعلم تھے۔
ہم ہمیشہ شہداء کی صفِ اول میں شامل رہے۔
غم کے پیالے لبریز ہو چکے تھے، ہم میں مزید یہ سکت باقی نہ رہی تھی کہ جوانوں کی جدائی کا درد برداشت کر سکیں۔ اسی لیے میں اُسے (فیصل مشال کو) بار بار سمجھاتا کہ وہ اپنی پڑھائی پر توجہ دے، تعلیم حاصل کرے، کیونکہ وہ ابھی بچہ ہے، نابالغ ہے۔ اُس نے میری طرف دیکھ کر ایک نرم مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
’’کیا آپ نہیں چاہتے کہ آپ کا چھوٹا بھائی بھی اللہ جل جلالہ کے حضور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر حاضر ہو؟ اپنے بھائی اور چچیرے بھائیوں کے ساتھ جا ملے؟‘‘
پھر اُس نے مزید کہا: ذرا آج کے نوجوانوں کو دیکھو! کون سا گناہ ہے جو وہ نہیں کرتے؟
پھر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگا: مجھے ان نوجوانوں کی حالت پر افسوس ہوتا ہے، بس!
تو میں نے بھی جواب دیا: فیصل جان! اللہ تعالیٰ تمہارا اور تمام غازیوں کا حامی و مددگار ہو!
میدانِ جہاد میں:
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، شہید ڈاکٹر فیصل مشال نہایت ذہین، ہوشیار اور بلند حوصلے کے مالک تھے۔ ہر حالت میں وہ اپنے رب کا ذکر کرتے رہتے۔ اسی وجہ سے ساتھی ہر کمین گاہ یا حملے میں اُن کی موجودگی پر اصرار کرتے، کیونکہ ان کی کم عمری کے باوجود ان کا شجاع اور پرہیزگار ہونا اُنہیں دوسروں میں ممتاز بناتا تھا۔
انہوں نے اپنی جہادی تربیت کو مؤثر بنانے کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ عملی مشقیں شروع کیں، تاکہ دشمن کے خلاف ایک چوکنے، ہوشیار اور ثابت قدم مجاہد کی حیثیت سے میدان میں اُتر سکیں۔
شہید ڈاکٹر فیصل مشال ہر عسکری کارروائی اور مشن میں اپنے سینئرز اور ساتھیوں کے ساتھ ایک تجربہ کار، ہوشیار اور بہادر مجاہد کے طور پر فعال کردار ادا کرتے تھے۔
ایک ساتھی کا بیان:
ڈاکٹر فیصل مشال کا ایک ساتھی کہتا ہے: میں خود چشم دید گواہ ہوں کہ وہ عسکری میدان میں کتنی بہادری، دلیری اور اعلیٰ عسکری حکمت عملیوں کا مظاہرہ کرتا تھا۔ شہید ڈاکٹر فیصل مشال ہر قسم کے عسکری آپریشنز اور سخت حالات میں اپنے قائدین اور ساتھیوں کے لیے ایک قابلِ اعتماد مثال تھے۔
وہ ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے ہر دشمن کے خلاف مؤثر اور شدید جدوجہد کے لیے تیار رہتا۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ اپنے علاقے میں ایک فعال مجاہد تھا اور کابل میں طب (میڈیکل) کا ایک قابل، ذہین، باصلاحیت اور پرہیزگار طالب علم بھی تھا۔
بھائی کا بیان:
اس کا بھائی کہتا ہے: شہادت کے بعد میں اس کے ہاسٹل میں گیا جہاں فیصل مشال کا رہائشی کمرہ تھا۔ میں نے سوچا اگر اس کمرے کا کوئی کرایہ باقی ہو تو میں ادا کر دوں۔ وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھے بٹھالیا اور فیصل کے دیانت، تقویٰ اور پرہیزگاری کے بارے میں گفتگو شروع کی۔ اس دوران ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اس دوران دو گھنٹے گزر گئے۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے:
اگر میں پورا دن بھی اس کی باتیں کروں، اُس کی دیانت، تقویٰ، پرہیزگاری اور خوش اخلاقی بیان کرتا رہوں، تب بھی کم ہے۔
اور میں یہ سب سن کر سوچ رہا تھا گویا کہ یہ شخص فیصل کا سگا بھائی ہو۔
مجلس کے بعد:
مجلس ختم ہونے کے بعد میں نے ان سے کہا: اگر فیصل جان پر آپ کا کوئی قرض ہو تو میں اسے ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
وہ روتے روتے بولے: کسی کا کوئی قرض نہیں اُس پر۔
پھر میں نے ان سے فیصل جان کے بستر کے بارے میں بات کی اور کہا: والدہ نے اُس کا بستر مانگا ہے، میں چاہتا ہوں وہ اسے اپنے پاس رکھیں۔
وہ ایک لمحے کے لیے شدت سے رویا، اور پھر کہنے لگا: میں اُسے ایک یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔
میں نے جتنی بھی کوشش کی، مگر ممکن نہ ہوا کہ اُسے گھر لے جا سکوں۔
اخلاق اور سماجی برتاؤ:
وہ تمام مجاہدین، گاؤں والوں اور عام مسلمانوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا تھا جیسے برسوں سے ان سے جان پہچان رکھتا ہو۔ اگر اخلاقی پہلو سے شہید فیصل مشال تقبله الله کا جتنا بھی ذکر کیا جائے یا میں جتنا بھی اس کے بارے میں لکھوں، تب بھی اُس کے اخلاقی کمالات کی مکمل عکاسی ممکن نہیں۔ شہید فیصل مشال کی تمام جدوجہد، قربانیوں اور کوششوں کا واحد مقصد اللہ تعالیٰ کی زمین پر الہی احکام کا نفاذ اور ایک خالص اور پاکیزہ اسلامی نظام کا قیام تھا۔
شہادت:
شہید فیصل مشال تقبله الله، صوبہ وردگ کے سیدآباد ضلع میں کئی کارروائیوں میں بذاتِ خود شریک تھا، تاکہ شہادت کی عظیم سعادت حاصل کر سکے اور اپنے ربّ جلیل سے ملاقات کرے۔ لیکن ربّ العالمین کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو عظیم فتح نصیب فرمائی اور وہ اپنے سنگر کے ساتھیوں کے ہمراہ کابل میں داخل ہوئے۔ فتح کے بعد اس نے اپنے قائدین سے مطالبہ کیا کہ وہ اُسے باغیوں کے خلاف لڑنے دیں تاکہ وہ اپنا اصل مقصود، یعنی شہادت کا اعلیٰ اور باعزت مقام حاصل کر سکے، لیکن ساتھیوں نے اُسے اجازت نہیں دی۔
حالانکہ فیصل جامِ شہادت کا مدتوں سے پیاسا تھا۔
بالآخر کابل کی مبارک فتح کے دوران انہیں اور ان کے ساتھیوں کو سردار محمد داوود خان کے ۴۰۰ بستروں والے اسپتال کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی، تاکہ وہ اسپتال کا تحفظ یقینی بنائیں۔ انہوں نے اپنے قائدین کے حکم پر لبیک کہا اور اپنی ذمہ داری نبھانا شروع کر دی۔
فتح کو ابھی تین مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ ایک دن دوپہر کے وقت، شہید فیصل مشال تقبله الله چیک پوائنٹ پر پہرہ دے رہا تھا تاکہ اس کے ساتھی آرام سے دوپہر کا کھانا کھا سکیں۔ اسی دوران، ایک ملعون داعشی نے موٹرسائیکل پر سوار ہو کر چیک پوائنٹ پر خودکش حملہ کیا۔ اس ناپاک اور خبیث حملے کے نتیجے میں، شہید فیصل مشال نے اپنی سب سے بڑی تمنا پوری کرلی اور اپنے رب جلیل سے جا ملا۔
نحسبهم کذالک واللہ حسیبهم۔
یادیں:
پہلی یاد: (بھائی کے الفاظ میں)
شہید ڈاکٹر فیصل مشال ہمارے سب سے چھوٹے بھائی تھے اور والدہ کو بےحد عزیز تھے۔ لیکن گھر میں جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا، وہی اسے حل کرتا یا والد، والدہ اور دیگر گھر والوں کو ایسی پختہ رائے دیتا، جیسے کوئی بڑا عالم یا جرگے کا معتبر شخص فیصلہ دے رہا ہو۔ عمر میں چھوٹا، مگر ذہن اور سوچ میں خاندان کا بڑا تھا۔
دوسری یاد:
ہم ساتویں سیکٹر میں تھے اور وہ ۴۰۰ بستروں والے اسپتال میں۔ دوپہر کا وقت تھا، میں فیصل مشال سے فون پر بات کر رہا تھا۔ وہ کہنے لگا: والی بال کھیلتے ہوئے ہاتھ زخمی ہو گیا ہے، ڈاکٹر سے وقت لیا ہے، ڈیڑھ بجے کے بعد علاج کرواؤں گا۔
پھر کہنے لگا: بعد میں بات کریں گے۔
مجھے بھی دوستوں نے کھانے پر بلایا، ہم بیٹھے اور کھانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ایک دوست کے فون پر کال آئی، کہا گیا: ’’عبدالحق چوک کے قریب دھماکہ ہوا ہے۔‘‘ اس نے فون بند کر دیا۔
میں نے سوچا: ’’فیصل بھی تو اسی علاقے میں ہے، پتہ کرتا ہوں۔‘‘
فون آن کیا، بار بار کال کی، مگر جواب نہ ملا۔ ایک اور دوست کے پاس کال آئی، کہا گیا: ’’۴۰۰ بستروں والے اسپتال میں دھماکہ ہوا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، گھبرا گیا، جلدی سے فیصل کو فون کیا، لیکن اس نے جواب نہ دیا۔ بار بار کوشش کی، چوتھی بار فون ملایا، اس بار کال مل گئی۔ میں نے کہا: ’’فیصل! خیریت ہے؟ جلدی بول!‘‘
ادھر سے ایک ایسی درد بھری آواز آئی، جیسے اسرافیل نے صور پھونک دیا ہو، میں وہیں زمین پر گر گیا۔
کچھ لمحوں کے لیے مکمل خاموشی چھا گئی۔
میری ساری امیدیں میرے کندھوں پر بوجھ بن گئیں۔
میں نے خود سے کہا: ’’اب فیصل اس دنیا میں نہیں رہا۔‘‘
آہ! بھائی، تُو مجھے کس کے حوالے کر گیا؟
میں اپنے کندھوں پر تیرا پانچواں جنازہ کیسے گھر لے جاؤں؟
میں ماں کا سامنا کیسے کروں گا؟
پتہ ہے اس نے مجھے فون پر کیا کہا: اس نے کہا: ’’فیصل شہید ہو گیا۔‘‘
ابھی تک وہ آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے:
فیصل شہید ہو گیا، فیصل شہید ہو گیا، فیصل۔۔۔
بھائی کہتے ہیں:
ہماری پیاری ماں ہمیشہ کہتی ہے: ’’ایک بیٹے کا بستر قندھار میں رہ گیا اور دوسرے کا بستر کابل میں۔‘‘
یہ جملہ ہمیں بھی اکثر رُلا دیتا ہے۔
ماں کہتی ہے: ’’میرے بیٹوں کے بستر مجھے واپس لا دو!‘‘
کبھی کبھار، ان بستروں کو دیکھ کر اُن کی دید کی پیاس بجھالوں گی۔
نوٹ:
دونوں شہید بھائی طالبعلم تھے۔