خلافت بنی امیہ میں خاص طور پر عبدالملک بن مروان کی خلافت کے آغاز میں خوارج کا خطرہ بہت بڑھ گیاتھا، جس کی وجہ سے امت تقریباً مختلف حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی؛ یہ خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور سے چلے آرہے تھےاور کچھ علاقوں میں چھپے ہوئے تھے، جو وقت اورمواقع کو دیکھتے ہوئے دوبارہ سامنے آنا شروع ہوگئے۔
صفریہ، خوارج کا وہ گروہ تھا جس نے عبدالملک بن مروان کے خلاف بغاوت کی تھی، اس گروہ کو صفریہ کہا جاتا ہے کیونکہ بہت زیادہ عبادت کرنے کی وجہ سے ان کے چہرے زرد رنگ کے ہو گئے تھے؛ صفریہ خوارج نے شدت پسندی اور سخت گیری کی راہ اختیار کی تھی اور اپنے باطل عقائد کی بنیاد پر مسلمانوں کے خون بہانے کا عہد کر رکھا تھا، وہ گذشتہ خوارج کے پیروکار تھے اور ہر اس شخص کو کافر سمجھتے تھے جو ان کے عقیدے کو غلط کہتاتھا بلکہ ایسے افراد کو واجب القتل بھی سمجھتے تھے۔
اس گروہ کی قیادت صالح بن مسرح التمیمی کر رہا تھا اور اس نے عبدالملک بن مروان کے خلاف بڑی قوت کے ساتھ بغاوت شروع کی، صالح بن مسرح کا ایک جنگی کمانڈر شبیب بن یزید تھا، جو لڑائی، بہادری اور تیزی میں اپنی خاص شہرت رکھتا تھا۔
صفریہ خوارج اس وقت زیادہ مشہور ہوئے جب انہوں نے حج کے موسم میں عبدالملک بن مروان کو قتل کرنے کی کوشش کی، شبیب بن یزید کی قیادت میں، صفریہ خوارج نے بہت کم تعداد میں ہونے کے باوجود حجاج بن یوسف کی فوج کو کئی بار شدید شکست دی تھی، کوفہ میں انہوں نے حجاج کے فوجی کمانڈر عتاب بن ورقاء اور اس کے ساتھ چھ سو سپاہیوں کو قتل کردیا تھا۔
جب حجاج بن یوسف کو کوفہ کے لوگوں سے یہ امید ختم ہوگئی کہ وہ خوارج کے خلاف جنگ جیت سکیں گے، حالانکہ خوارج کی تعداد بہت کم تھی اور حجاج کی فوج زیادہ تھی، تو عبدالملک بن مروان کے حکم پر حجاج نے خود اپنی فوج کی قیادت سنبھالی اور پہلی بار شبیب بن یزید کی فوج کو شکست دی، شبیب بن یزید بھاگنے کر اہواز میں پناہ گزیں ہوگیا۔
حجاج بن یوسف نے پھر اپنی فوج شبیب کے پیچھے بھیجی، جہاں دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئیں اور ایک سخت جنگ شروع ہو گئی، جنگ کا نتیجہ ابھی واضح نہیں تھا کہ شبیب بن یزید ایک بار پھر فرار ہوگیا، راستے میں ایک بڑی نہر کو عبور کرتے ہوئے وہ اپنے گھوڑے سے گر پڑا اور پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو گیا، اس طرح اموی خلافت شبیب کی بغاوت سے محفوظ رہ گئی اور مسلمان معاشرہ نجات پاگیا۔