المرصاد کو اپنے ذرائے سے معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ بدھ کے شب صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل کے چار علاقوں میں پاکستانی جارح فوج کے فضائی حملوں میں مقامی افغان بھی ہلاک ہوئے۔
بتایا جاتا ہے کہ شہید ہونے والوں میں ۱۵ سے زائد افغان عورتیں اور بچے تھے جن میں سے اکثریت کا تعلق ایک ہی گھرانے سے تھا۔
واضح رہے کہ اس وحشیانیہ حملے میں شہید ہونے والے ۵۰ افراد میں زیادہ تر وزیرستانی مہاجرین کی بے گناہ عورتیں اور بچے ہیں ۔ اس کے ساتھ پاکستانی جارح فوج کا وہ دعویٰ کہ اس نے افغانستان میں اپنے مسلح مخالفین کو نشانہ بنایا ہے غلط ثابت ہو گیا ہے اور یہ ان کے خلاف بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کسی بھی قسم کی انتقامی کاروائی کو جواز حاصل ہو گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ کس طرح ممکن ہے کہ جنوبی و شمالی وزیرستان میں پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں پر مسلح چھاپہ مار حملے اور دھماکے افغانستان سے ترتیب دیے جا رہے ہوں اور وہ بھی عورتیں اور بچے کر رہے ہوں؟ کیونکہ ایک طرف ڈیورنڈ کی فرضی لائن پر خار دار تاریں، خندقیں، اور رکاوٹیں موجود ہیں اور زیادہ تر علاقے پہاڑی ہیں، جبکہ دوسری جانب یہ علاقے ڈیورنڈ کی فرضی لائن سے بہت دور واقع ہیں۔ قبائلی علاقوں میں ماضی میں پاکستانی جارح فوج اور قبائلیوں کے درمیان جنگیں اور تنازعات ہوتے رہے ہیں، اور کئی بار ان کے درمیان امن معاہدے بھی ہو چکے ہیں۔
اُس وقت کوئی وزیرستانی شہری افغانستان میں نہیں تھا۔ درحقیقت اس طرح پاکستانی جارح فوج چاہتی ہے کہ ہمیشہ کے لیے قبائلی علاقوں کو فتح کر لے، ان کی جداگانہ قبائلی حیثیت تباہ کر دے، اپنے داخلی مسائل سے عوام کی توجہ پھیر دے، سکیورٹی کو قابو پانے میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال دے اور اپنی وہ جنگی حکمت عملی جاری رکھے جس سے اپنے جرنیلوں کی آرام دہ زندگی اور عیاشیوں کے لیے پیسے اور اخراجات حاصل کرتی ہے جیسا کہ یہ پچھلی کچھ دہائیوں سے کرتی آئی ہے۔ لیکن اس کے نتائج خطے کی سکیورٹی کے لیے بہت ضرر رساں ہوں گے اور اس کی وجہ سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا۔