اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی بے شمار مہربانیوں اور انعامات میں سے ایک عظیم نعمت یہ ہے کہ اس نے ہمیں اسلام کے مقدس دین اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے پیارے نبی کی پیروی کرنے کا شرف بخشا، ان نعمتوں کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑا اعزاز ہمیں جہاد کی مقدس راہ اور اس کی فرضیت عطا کی گئی ہے۔
جہاد، اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں میں سب سے زیادہ پسندیدہ حکم ہے، لیکن یہ حکم صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کے رگوں میں اسلام کی سچی محبت اور ایمانی خون دونوں موجود ہوں، جهاد شریعت کے نفاذ کا سب سے بہترین طریقہ اور حق کے قیام کا بہترین وسیلہ ہے؛ لیکن دوسری طرف، تاریخ میں حق اور جہاد کے مقابلے میں ہمیشہ سے ایک باغی اور سرکش جماعت رہی ہے تاکہ حق کی روشنی کو مدھم کردے اور اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالے۔ ایسی جماعتیں کبھی دوسروں کے اکسائے جانے سے، کبھی حق کے نام پر دھوکہ دہی سے اور کبھی اپنی جہالت کی وجہ سے سر اٹھاتی ہیں۔
یہ جماعتیں ابتداء میں زبانی شدت پسندی کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنے فریب کارانہ الفاظ سے مسلمانوں کو حق سے باطل کی طرف مائل کرتی ہیں، نوجوانوں کو تباہی کے راستوں پر گامزن کرتی ہیں، انسانی اقدار اور حقوق کو پامال کرتی ہیں، مختصراً یہ کہ ایسی جماعتیں انسانیت اور اسلام کے نام کو بدنام اور مسخ کرتی ہیں۔
ان جماعتوں میں سے آج بھی ایک جماعت ہو بہو خوارج کے راستے پر گامزن ہے، خوارج افراطیت، تکفیر اور وحشت کی طلب گار اور ماننے والے ہیں، خوارج کے آغاز اور ظہور کے بارے میں مختلف روایات اور آراء موجود ہیں، مگر جمہور علماء کے نزدیک اس گروہ کی ابتداء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہوئی، ان میں سے پہلے شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا اور آپ کے عدل کو ناقص قرار دیا۔
عبداللہ ذو الخویصرة نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ” اے محمد، عدل سے کام لو!” حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوۃ سے پہلے اور بعد میں اس امت کے سب سے عادل اور امین شخص تھے، اور اس وقت کے کفار بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت، عدل اور امانت داری کے قائل تھے؛ لیکن ان تاریکی کے پیروکاروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت اور عدالت پر شک کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذو الخویصرة کو قتل کرنے کا ارادہ کیا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روکا اور فرمایا: "اس شخص کی نسل میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو تم سے زیادہ عبادت کریں گے، لیکن دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے جسم سے نکلتا ہے۔”
فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق خوارج کی تعداد بڑھتی گئی، یہ منحرف نسل بڑھتی چلی گئی اور ان کا مقصد اسلام کو مٹانا، مسلمانوں کی تکفیر کرنا اور مسلمانوں کے درمیان جھگڑے اور مشکلات پیدا کرنا تھا، حتیٰ کہ اسلام کے تیسرے خلیفہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، جو حیاء اور سخاوت کے پیکر تھے، قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیے گئے۔
اس سنگین اور نا قابل معافی گناہ کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلافات کی آگ بڑھکائی، مسلمانوں کی فوجیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کی گئیں، آخرکار اسلام کے چوتھے خلیفہ راشد، شجاعت اور بہادری کے پیکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی اس حالت میں شہید ہوگئے جب وہ نماز فجر کی اذان دے رہے تھے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک گروہ ہوگا جو خود کو سب سے بہتر مسلمان سمجھیں گے، مگر وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے؛ بالکل اسی طرح خوارج میں افراطیت کا رجحان بڑھتا گیا اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ جاہلیت، ظلمت و تاریکی کی طرف بڑھتے گئے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔