داعش کی دشمنی حقیقی مسلمانوں اور دینی علماء کے ساتھ ایک وسیع اور گہری سطح پر جاری ہے، کیونکہ حقیقی مسلمان اورعلماء کرام ان کے انتہاپسند نظریات اور غلط اعمال کے خلاف مضبوط موقف رکھتے ہیں اور ان کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
داعش براہ راست ان دینی علماء اورحقیقی مسلمانوں کے لیے خطرہ ہےحتیٰ کہ انہیں قتل بھی کرتا ہے جو ان کے انتہاپسند نظریات اور افعال کی مخالفت کرتے ہیں، داعش کے ہاں ہر وہ شخص جو ان کے افعال اور نظریات کے خلاف بات کرتا ہے، وہ "دشمن” حتیٰ کہ "مرتد” اور "کافر” ہے۔
وہ ایسے فتاوی اور نظریات کو رد کرتے ہیں جوعلماء کرام نے اعتدال اورصلح وامن کی بنیاد پر دیے ہیں، ایسے اقوال وفتاوی کولوگوں کے سامنے تحریف کرکے غلط انداز سے پیش کرتے ہیں، وہ جان بوجھ کر دینی علماء کے اقوال کو تحریف کرتے ہیں اور اپنی انتہاپسند نظریات کو اصل اسلامی مفاہیم کے بجائے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، تاکہ لوگوں کو حقیقی دینی رہنمائی سے دور کر سکیں۔
وہ تعلیمی مراکز اور دینی مدارس جو اسلام کی حقیقی اقدار و تعلیمات سکھاتے ہیں، ان کو نشانہ بناتے ہیں اورانہیں مستشرقین کا نام دے کر وہاں دھماکے کرتے ہیں، داعش کا مقصد یہ ہے کہ وہ ایسے مقامات کو تباہ کر دے جہاں لوگ حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں اور انتہاپسندی کے خلاف معقول دلائل کے ذریعے لوگوں کو شعور دیتے ہیں۔
داعشی ہمیشہ ان علماء اور مذہبی رہنماؤں کو اپنے پروپیگنڈے اور حملوں کا نشانہ بناتے ہیں جو امن، اعتدال اور اسلامی اخوت کا پیغام پھیلاتے ہیں، اسلام کی اصل روح کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور جہالت کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں، ایسے علماء کو اپنے انتہاپسندانہ پروپیگنڈے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور ان پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات عائد کرتے ہیں۔
داعشی حقیقی مسلمانوں اورعلماء سے دشمنی کی وجہ سےمسلمانوں کے مقدس مقامات اور مساجد پر حملے کرتے ہیں اور بے گناہ مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں، اس کی واضح مثالیں کابل، مزار شریف، ننگرهار، ہرات، کندهار، پشاور اور کوئٹہ میں ان مساجد اور مدارس میں ہونے والی دھماکوں میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں کے امام اور مدرسین داعش کی دعوت کو اسلام کے اصولوں وتعلیمات کے خلاف سمجھتے ہیں۔
یہ حملے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف دشمنی کو ظاہر کرتے ہیں، بلکہ یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ داعشی کسی طرح بھی اسلامی وانسانی اقدار کا احترام و روادار نہیں۔
اس کے علاوہ داعش کی دینی علماء کے ساتھ دشمنی صرف فقہی اور عقیدوی اختلافات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ سیاست، اقتدار اور مسلمانوں میں اپنی حیثیت کے حصول کے لیے بھی ہے، دینی علماء عوام کے مابین قابل اعتماد سمجھے جاتے ہیں اور تمام مسلمان انہیں دینی رہنمائی کے لیے ان کااتباع کرتے ہیں، جب کہ داعش اس مقام، عوام کے اعتماد، اثر ورسوخ کو اپنے راستے میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔