کابل میں طالبان کے اقتدار کے ساتھ ہی داعش کی فتنہ انگیزی میں مزید اضافہ ہو گیا اور مغرب نواز میڈیا نے اس کا بڑے پیمانے پر خوب پراپیگنڈہ شروع کر دیا۔ طالبان نے بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور بروقت داعشی فتنے کو دبانے کے لیے کاروائیاں شروع کر دیں۔ تب داعشی پڑوسیوں کی سرحدوں اور پھر ان کے ملکوں میں چلے گئے۔
طالبان نے پچھلے عرصے میں میڈیا کو بار بار یہ وضاحت دی کہ مغرب نواز منصوبہ داعش اب مزید افغانستان میں سرگرم نہیں اور اسے ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔
بعض انٹیلی جنس حلقوں نے، جو نہیں چاہتے کہ افغانستان میں داعشی منصوبہ ختم ہو، داعش کو متحرک کرنے کے لیے اچھی خاصی زمین سازی کی ہے لیکن وہ سب بے نتیجہ ثابت ہوا جس کا ذکر ہم تفصیل سے پہلے کر چکے ہیں اور آپ نے اسے گزشتہ تحریروں میں پڑھا ہو گا۔
انٹیلی جنس معلومات کے مطابق، خطے کے انٹیلی جنس اداروں نے بھرپور کوشش کی ہے کہ وہ داعش کا وجود افغانستان میں ثابت کر سکیں اسی لیے قندھار میں حملہ کیا گیا اور مغرب نواز میڈیا نے اس کو خوب اچھالا۔
طالبان کی تفتیش اور انٹیلی جنس معلومات کے مطابق حملہ آور نے ہمسایہ ملک میں تربیت حاصل کی اور پھر ان کے انٹیلی جنس اداروں کے تعاون سے بڑی مہارت سے افغانستان کی سرزمین میں داخل کر دیا گیا اور بالآخر حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
طالبان بارہا کہہ چکے ہیں کہ یہ خطے کے انٹیلی جنس اداروں کا کام ہے اور داعش کو ایک نام اور منصوبے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کچھ ثبوت بھی پیش کیے۔
انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق داعش نے پوری کوشش کی کہ عید کے دنوں میں اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے اور انتشار پیدا کرنے کے لیے کابل یا قندھار کے بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں کاروائیاں کریں لیکن طالبان کی مضبوط سکیورٹی چیکنگ اور موبائل گشت نے ان کے تمام منصوبوں کے آگے بند باندھ دیا اور عید کے دن بغیر کسی سانحے کے خیر و عافیت کے ساتھ اس طرح گزر گئے کہ دیگر برسوں کی نسبت سیاحوں کا رش اور خوشی زیادہ تھی اور عید اپنے ساتھ امن کا پیغام لے کر آئی۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ اس بار طالبان نے داعشیوں کی جڑیں اکھاڑنے کے لیے کمر کس لی ہے اور مستقبل قریب میں انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا اور ہمیشہ کے لیے داعش کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔