چاند غزہ کی جنگ زدہ گلی کوچوں پر اپنی روشنی بکھیر رہا تھا، ہوا بوجھل تھی، جیسے خون کی بو نے فضا کے سکون کو توڑ دیا ہو، گھروں کے ملبے، ٹوٹے ہوئے دروازے، ریت اور پتھروں پر بکھرے قرآن کے اوراق؛ یہی غزہ کا حال تھا۔
رات تھی، لیکن یہ وہ رات نہیں تھی جو آرام اور سکون کی رات ہو بلکہ یہ بے بسی، مظلوموں کی آہوں، شہادت کے نغموں اور صبر کے ساتھ درد وتکالیف کو برداشت کرنے کی رات تھی۔ بچوں کا رونا، ماؤں کی دعائیں، زخمی نوجوانوں کی آخری آہیں اور ایک مقبوضہ سرزمین کے دل سے اٹھتی ہوئی چیخ و پکار؛ یہی غزہ کا ہرلمحے کا ترانہ تھا۔
لیکن اس ترانے سے ایک اور ترانے نے جنم لیا؛ جو مزاحمت، بہادری، عزت اور آزادی کا ترانہ تھا۔
کئی دہائیاں بیت چکیں کہ قابض افواج نے جنگ کی آگ دہکا رکھی ہے، جنہوں نے بے گناہ انسانوں کے گھروں کو مسمار کر ڈالا، زخمیوں اور معصوم بچوں سے بھرےہسپتالوں کو بمباری کا نشانہ بنایا، بوڑھوں کی آرزوئیں بارودی دھوئیں میں ہوا ہوگئیں، مٹی میں دبی لاشیں، شاہراہوں پر پڑے ٹکڑے ٹکڑے جسم، آنکھوں سے نکلے خونیں آنسو اور غمگین دلوں کی فریادیں، ہر تباہ شدہ گھر کی الگ الگ کہانی تھی۔
ایک نوجوان، جس کے علم و حکمت کا سفر ادھورا رہ گیا، مگر اس نے شہادت کا فیض حاصل کیا؛ ایک ماں، جو اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر پر مسکرا رہی تھی، مگر دل کا ٹکڑا اس کے بیٹے کے جسم کے ساتھ مٹی میں دفن ہو گیا تھا؛ ایک چھوٹی سی لڑکی، جو اپنے بھائی کا نام مٹی میں لکھ کر آہستہ سے کہ رہی تھی: "میں تمہارے خوابوں کی تعبیر تلاش کروں گی۔” یہ ظلم کی تاریکی تھی، لیکن غزہ کا خونِ شفق اس تاریکی کو شکست دے رہا تھا۔
اسماعیل ہنیہ کا وعدہ تھا کہ: "غزہ کبھی تسلیم نہیں ہو گا!”
یحییٰ السنوار کا نعرہ تھا کہ: "ہمیں آزادی کی قیمت معلوم ہے!”
ہزاروں شہیدوں کا پیغام کہ: "ہمارا خون ضائع نہیں جائے گا!”
غزہ کے لوگ اب بھی سنوار اور ہنیہ کے دلوں کی آوازیں سنتے ہیں، ہر شہید کا خون مزاحمت کی کہانیاں سنا رہا ہے، ہر بچے کی آنکھیں صبحِ آزادی کی منتظر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ جنگ صرف ہتھیاروں کی نہیں، بلکہ عقیدے، عزت اور تقدس کی جنگ ہے، وہ جانتے ہیں کہ ظلم کی عمر کم ہوتی ہے، لیکن شہادت کی روشنی ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔
صبح ہو چکی تھی؛ لیکن یہ صبح دوسرے علاقوں کی صبح جیسی نہیں تھی، دوسرے علاقوں میں لوگ آزادی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں، مگر یہاں، ہر سانس کے ساتھ بارود کی بو آ رہی ہے، دوسرے علاقوں میں مائیں اپنے بیٹوں کے مستقبل کا خواب دیکھ رہی ہیں، مگر یہاں، مائیں اپنے بیٹوں کے جسم کے ٹکڑے جمع کر رہی ہیں۔
دوسرے علاقوں میں، بچے اسکول جاتے ہیں، لیکن یہاں، بچوں کی کتابیں خون اور مٹی میں دفن ہیں، وہ بموں کے نیچے مزاحمت کے اسباق سیکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود، غزہ زندہ ہے!
یہاں مظلوموں کی آہیں مزاحمت کا انقلابی جذبہ پیدا کرتی ہیں، یہاں شہیدوں کا خون غیرت کے چراغ روشن کرتا ہے، غزہ کے ساحل کے قریب ایک نوجوان کھڑا تھا، اس کی نظریں افق کی طرف تھیں، اس کا چہرہ امید کی عکاسی کر رہا تھا، اس کے دل میں اپنے لوگوں سے محبت اور دشمن کے خلاف جنگ کا عزم تھا، اس کے ہاتھ دعا کے لیے بلند ہوئے اور وہ مسکرا رہا تھا، جیسے آزادی کی روشنی اس کی آنکھوں میں آ چکی ہو۔ دنیا کے ہر مظلوم نے اس پیغام کی گونج سنی:
"آزادی مل کر رہے گی! "
"غزہ ہمیشہ رہے گا!”
"ظلم شکست کھائے گا”!