رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاریک معاشرے اور قبیلے میں رسالت کے لیے مبعوث ہوئے، آپﷺ نے اپنے اس قبیلے کو انوارات ربانی سے منور کرنے اور ہدایت دینے کے لیے بڑی محنت کی، آپﷺ نے اخلاقِ حسنہ کے ذریعے دعوت الی اللہ کا عظیم کام سرانجام دیا اور اسلام جیسے مقدس دین کی دعوت بہترین انداز سے دیتے رہے، جو کہ آئندہ نسلوں کے لیے دعوت کے اصولوں کے مآخذ اور مصدر بن گئے۔
اس قبیلے نے، جسے دعوتِ دین قبول کرنی چاہیے تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی، انہوں نے آپ کا مذاق اُڑایا اور تمسخر کا رویہ اختیارکیا، صرف اسی پر ہی بس نہ کیا بلکہ آپ کو شہید کرنے کی بھی سازشیں کیں۔
مکہ میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک سخت اور کٹھن ماحول تھا، جہاں نہ تو آپﷺ سکون سے رہ سکتے تھے، نہ ہی آپ کو چین نصیب تھا اور نہ ہی آپﷺ کو مکہ کے مشرکین کی طرف سے دعوت الی اللہ کی روشنی پھیلانے کی اجازت دی جارہی تھی۔ تاہم اللہ کی خاص نصرت سے آپ اپنے اس ظالم قبیلے سے صحیح سلامت باہر نکلے اور مشرکین کی سارے منفی ارادے بے اثر ہوگئے۔
آپ مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے، جہاں آپ کو دعوت کا ایک آرام دہ اور مناسب ماحول میسر آیا، آپ کی مدینہ آمد کے بعد وہاں امن اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوگئی، اور اوس و خزرج کے درمیان جو شدید دشمنی تھی، وہ بھائی چارے اور محبت میں بدل گئی۔
لیکن اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو بڑے خطرات کا سامنا تھا، پہلا خطرہ قریش سے تھا؛ کیونکہ وہ اسلام کے روشن اور بہتر مستقبل کو دیکھتے ہوئے ممکنہ طور پر منفی اقدامات اٹھانا ضروری سمجھتے تھے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں سب سے پہلے ایک مستحکم ریاست قائم کرنے کی کوشش کی، جس کے ذریعے آپ نے اپنے ارد گرد موجود تمام ہمسایوں کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات استوار کیے۔
قریش مسلسل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھمکیاں دیتے اور یہ کہتے تھے کہ مدینے کی جانب ہجرت کرکے یہ مت سمجھو کہ آپ ہمارے چنگل سے بچ گئے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خطرے کا احساس تھا اور یہی وجہ تھی کہ آپ اپنے صحابہ کرام کے بارے میں فکر مند رہتے اور اکثر راتوں کو جاگ کر گزارتے۔
دوسرا خطرہ یهود تھے؛ وہ قوم جو مکر و فریب میں ماہر تھی اور ان کی طرف سے وقتاً فوقتاً وہ اقدامات سامنے آتے رہتے تھے جن کی ان سے توقع کی جاتی تھی، یہ قوم سرطان کی رسولی کی طرح تھی، جو ہر معاشرے کو زہر سے مسموم کرتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی انہوں نے بغض اور کینے کا اظہار کیا اور خفیہ طور پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔
لیکن اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتال اور جہاد کا حکم نہیں دیا گیا تھا، لہذا آپﷺ کو اللہ کی طرف سے صبر کی نصیحت کی جا رہی تھی، مختلف مشکلات کے باوجود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اللہ کے حکم کے پابند رہے اور وہ بے صبری سے اس وقت کا انتظار کر رہے تھے جب انہیں قتال کا حکم ملے گا تاکہ ظالموں کے ہاتھوں کو روکا جائے اور اپنے اسلامی نظام کو کفر کی خفیہ اور ظاہر سازشوں سے بچایا جائے۔
آخرکار انتظار کی یہ گھڑیاں ہجرت کے دوسرے سال ختم ہوئیں، جب اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو جہاد کی اجازت دی، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:
’’أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَٰتَلُونَ بِأَنَّهُمۡ ظُلِمُواْۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ نَصۡرِهِمۡ لَقَدِيرٌ‘‘ (سورة الحج، آیت 39)
ترجمہ: جن پر جنگ مسلط کی گئی انہیں اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ جہاد کریں کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، اور بے شک اللہ تعالی ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔
یہاں سے غزوات کا سلسلہ شروع ہوا اور اس دوران ایسی جنگیں بھی ہوئیں جنہوں نے اسلام کی عظمت و تقدس کو دنیا کے ہر کونے تک پہنچا دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت لکھنے والے مغازی نگاروں نے غزوات کا دو طرح سے تجزیہ کیا ہے: بعض غزوات وہ ہیں جن میں مسلمانوں اور کافروں کے درمیان براہِ راست لڑائی ہوئی اور ان میں سے پہلی غزوہ بدر کی جنگ ہے، بعض دیگر حضرات مطلق طور پر تمام جنگیں مہمات کو چاہے ان میں براہ راست جنگ ہوئی یا نہیں ہوئی غزوات مین شمار کرتے ہیں، اس اعتبار سے پہلا غزوہ ابواء کا غزوہ ہے۔
ہم کوشش کریں گے کہ ان غزوات کو زیرِ بحث لائیں، جن میں جنگ ہوئی تھی، تاکہ جنگ کے میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی، آپ کی تدبیر اور حکمتِ عملی سے حاصل ہونے والے اسباق اور دروس سے استفادہ کریں اور دشمنانِ اسلام کی جانب سے پھیلائے گئے کج فہمی و کم عقلی پر مبنی اعتراضات وشبہات کا تجزیہ کریں۔