جب مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا گیا، اس کے ساتھ ہی جہاد کی سنہرے فلسفے کا آغاز بھی ہوا، وہ فلسفہ جو ہمیشہ مظلوم امت کو عروج کی بلندیوں تک پہنچاتا رہا اور اسلام کے دشمنوں کو شکست کی تلخی چٹواتا رہا۔
اہلِ سیر کے مطابق، وہ لشکر جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی ہو، اسے غزوة کہا جاتا ہے خواہ اس میں جنگ ہوئی ہو یا نہ ہو اور وہ لشکر جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت نہ کی ہو، اسے سریہ یا بعث (دستہ) کہا جاتا ہے، خواہ اس میں جنگ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔
غزوات کی تعداد کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں، موسی بن عقبہ، محمد بن اسحاق، علامہ واقدی، ابن جوزی رحمہم اللہ اور دیگر متعدد علماء کا کہنا ہے کہ تمام غزوات کی تعداد ۲۷ ہے، اسی طرح سریوں کی تعداد کے بارے میں بھی اختلاف موجود ہے اور بہت سے دیگر اہل سیر وتاریخ کا خیال ہے کہ سریوں کی تعداد ۳۸ ہے۔
یہ غزوات اور سریے صرف دس سالوں کے دوران ہوئے، جو کہ ہجرت سے شروع ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک کا عرصہ ہے، ان غزوات کے سلسلے کا پہلا غزوہ "أبواء” اور آخری غزوہ "تبوک” تھا، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے حکم پر کس حد تک عمل پیرا تھے۔
غزوات اور سریوں کے بارے میں مختلف آراء کا جائزہ
غزوات اور سریوں کی تعداد کے بارے میں مختلف اقوال ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سیرت نگاروں کا کہنا ہے کہ بعض علماء کچھ غزوات کو اس لیے ایک دوسرے میں مدغم کرتے ہیں کیونکہ وہ ایک ہی سفر میں واقع ہوئے تھے، جبکہ دیگر علماء ان غزوات میں سے ہر ایک کو علیحدہ غزوہ سمجھتے ہیں اور ایک سفر میں وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات کو الگ الگ شمار کرتے ہیں اور اس حوالے سے دیگر توجیہات بھی موجود ہیں، ہم صرف اسی ایک پر اکتفا کرتے ہیں۔
پہلا غزوہ: (غزوة الأبواء/ودان):
ابواء یا ودان جگہوں کے نام ہیں، یہ وہ پہلا غزوہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی تھی اور اس میں تقریباً ۷۰ مہاجر صحابہ کرام شریک تھے، یہ غزوہ ہجرت کے دوسرے سال صفر کے مہینے میں ہوا، اس غزوے میں جنگ نہیں ہوئی، اس میں مسلمانوں کا ہدف قریش کا قافلہ تھا جو شام کے راستے مکہ کی طرف جا رہا تھا اور وہ قبیلہ بنو ضمرہ کے علاقے میں تھا، لشکرِ اسلام مقام ودان تک پہنچا، مگر قافلہ جا چکا تھا اورشکار ہونے سے بچ گیاتھا، اس کے بعد بنو ضمرہ قبیلے نے جنگ کے لیے آمادگی کے بجائے صلح کر لی، اس صلح کے کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ بنو ضمرہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہیں کریں گے۔
۲۔ وہ مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد نہیں کریں گے۔
۳۔ ضرورت پڑنے پر مسلمانوں کی مدد کریں گے۔
۴۔ جب تک وہ اپنے معاہدے پر قائم رہیں گے، مسلمان ان کی مدد کریں گےلیکن اگر معاہدہ توڑا تو مسلمانوں کی مدد نہیں ملے گی۔
اس غزوے کے شرکاء ۱۵ دن مدینہ منورہ سے باہر رہے، مدینہ منورہ میں حکومت کے معاملات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ حضرت سعد بن ابی عبادہ رضی اللہ عنہ نے سنبھالے ہوئے تھے۔
اس غزوے سے حاصل ہونے والے اسباق:
الف: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف منبر پر قرآن اور شریعت کے بیان کنندہ نہیں تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ جنگ میں ایک ماہر فوجی اور جنگی حکمتِ عملی سے آگاہ جنرل بھی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے تمام پہلوؤں سے واقف تھے اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے میدان کو ہمیشہ اس طرح ترتیب دیتے کہ آخرکار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح حاصل ہوتی تھی۔
بنو ضمرہ قبیلے کا مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک اسٹریٹجک مقام تھا اور مکہ کے قریش اس مقام سے اپنے لیے استفادہ کر سکتے تھے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شرائط پر ان سے صلح کی، تاکہ قریش کے ساتھ پیش آنے والی جنگ کے دوران بنو ضمرہ قریش کا ساتھ نہ دے۔
ب: کفار کے ساتھ معاہدے کی اجازت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی عمل سے استنباط کی جا سکتی ہے، سیاسی معاہدہ جسے مسلمان حکمران مسلمانوں کے مفاد کے لیے صحیح سمجھیں اور مسلمانوں کے حال یا مستقبل میں نقصان اور مشکلات سے بچاؤ کر سکیں، شریعت میں اس کی اصل موجود ہے اور اس غزوے کے تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اسی طریقے کو اختیار کیا۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ سیاسی معاہدے میں مسلمانوں کا مؤقف واضح ہونا چاہیے اور اس میں تمام مسلمانوں کے مشترکہ مفاد کو مدنظر رکھا جانا ضروری ہے، ایسے معاہدوں میں یہ اہم ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی فلاح اور حفاظت کو ترجیح دی جائے، تاکہ کسی بھی فیصلے یا معاہدے سے مسلمانوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔