غزوہ بدر سے حاصل ہونے والے اسباق:
غزوہ بدر سے حاصل شدہ اسباق کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے، آج ہم آپ کے سامنے چند مزید اسباق اور عبرتیں پیش کرتے ہیں:
۵۔ شریعت میں جہاد ایک مستقل اور منصوص حکم ہے، جو مدنی دور کے بیشتر حصوں پر مشتمل ہے، لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ صلح اور معاہدہ بھی شریعت کی نظر میں ناجائز نہیں ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے غزوات میں جہاد کے ساتھ ساتھ صلح کی پالیسی بھی اپنائی ہے۔ امام اور حکمران مسلمانوں کے حالات کو ہر پہلو سے دیکھے گا، دشمن کے حالات کا بھی جائزہ لے گا، پھر اگر مصلحت اسے صلح میں نظر آئے تو وہ صلح کر سکتا ہے، اور اگر مصلحت جہاد میں ہو تو وہ جہاد کرے گا۔
یعنی شریعت میں صلح کو جہاد کے مفہوم کے خلاف نہیں کہا جا سکتا، بلکہ اسے جہاد ہی کا ایک حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ حکمران حالات سے متعلق علماء اور باخبر مسلمانوں سے مشورہ کرے گا، اور مشورے کی بنیاد پر قدم اٹھائے گا، البتہ شرط یہ ہے کہ مشورہ نص (قرآن و سنت) کے خلاف نہ ہو۔
۶۔ مؤمن کو یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ موت کا وقت مقرر ہے۔ اُسے بہادری اور کفار کے مقابلے میں غیرت مندانہ اقدام کو ترجیح دینا چاہیے۔ یا تو وہ کامیابی حاصل کر کے عزت کے ساتھ زندگی گزارے گا، یا شہید ہوگا، جو مؤمن کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ غزوہ بدر کا یہ غیر مسلح، افرادی و عسکری لحاظ سے کمزور لشکر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شجاعت اور غیرت کی باتیں سن رہا تھا، وہی پیغام پوری امت کو بھی دیا جا رہا ہے۔
۷۔ اسلامی لشکر کے امیر کو چاہیے کہ جنگ سے پہلے دشمن کی حالت کا مکمل جائزہ لے، اس کی طاقت اور نقل و حرکت کو بغور دیکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پالیسی پر بہت زیادہ عمل پیرا تھے، حتیٰ کہ خود بھی دشمن کی نگرانی کے لیے نکلتے تھے۔
۸۔ امیرِ لشکر کو چاہیے کہ اپنے جنگی منصوبے ظاہر نہ کرے بلکہ انہیں خفیہ رکھے۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر غزوہ کو خفیہ رکھتے تھے، یعنی اس کا اعلان نہیں کرتے تھے۔ غزوہ بدر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ اپنایا، جس کی چند مثالیں ہم اختصار سے پیش کرتے ہیں:
الف: جب ایک بوڑھے شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: "ممن أنتم؟” آپ لوگ کون ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: "نحن من الماء” ہم پانی سے ہیں۔
اگر آپ یہ فرماتے کہ ہم مسلمان ہیں، تو ممکن تھا کہ دشمن آپ کے مقام اور لشکر کی طاقت کے بارے میں معلومات حاصل کر لیتے۔
ب: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن حکم دیا کہ اونٹوں کی گھنٹیاں اتار دی جائیں۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ دشمن اسلامی لشکر کا سراغ نہ لگاسکے اور دشمن ان کا مقام معلوم نہ کر سکے۔
ج: جب اسلامی لشکر بدر کی طرف روانہ ہو رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر نہیں فرمایا کہ ہم بدر جا رہے ہیں، بلکہ فرمایا: ایک کام ہے، جو تیار ہو وہ سوار ہو جائے۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنگی منصوبے خفیہ رکھنا ضروری ہے، اور اگر امیر مصلحت سمجھے تو صرف قریبی مشیروں یا معاونین کو آگاہ کرے، دوسروں کو نہ بتایا جائے۔ یہی نبوی طریقہ ہے۔
۹۔ حضرت حباب بن منذر کی رائے اور ان کے مؤدبانہ الفاظ ایک اعلیٰ، پاکیزہ اور متوازن تربیت کی علامت تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اگر یہاں پڑاؤ وحی کی بنیاد پر ہے تو ہم وہیں رکیں گے، لیکن اگر یہ ایک بشری حکمت عملی ہے، تو بہتر ہوگا کہ ہم تھوڑا آگے چل کر وہاں پڑاؤ کریں۔
یہ جملے اطاعت، ادب اور رائے کے اظہار کا بہترین اسلوب ہیں، جو امت کو سکھاتے ہیں کہ امیر و قائد کے سامنے رائے کیسے دینی چاہیے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کی آراء سنتے، چاہے معاملہ کتنا ہی خطرناک اور پیچیدہ کیوں نہ ہو۔ حباب بن منذر کی رائے ایک فیصلہ کن موقع پر تھی، لیکن چونکہ یہ ایک درست اور حکمت بھری تجویز تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا۔
ایک شبہ اور اس کا جواب:
بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آ سکتا ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی باتوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مطمئن کیوں نہ ہوئے؟ اور کیوں آپ نے انصار کی رائے معلوم کرنا ضروری سمجھا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انصار کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا، اس میں یہ شرط نہیں تھی کہ انصار مدینہ سے باہر جنگ میں شریک ہونے کے پابند ہوں گے۔
لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ پہلے ان سے صاف طور پر اجازت لے لی جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اس اقدام پر راضی ہیں یا نہیں۔
مگر انصار کے پاکباز گروہ نے یہاں بھی وہی جذبہ دکھایا جو ابتدا میں دکھایا تھا، اور ایسی پُر جوش اور ولولہ انگیز باتیں کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو تسلی اور اطمینان حاصل ہوا۔
انہوں نے ثابت کیا کہ ہمارا معاہدہ اللہ جل جلالہ کے ساتھ ہے، ہم ہمیشہ اس کی راہ میں سر قربان کریں گے، اور اسلامی نظام کے خلاف ہر چیلنج کا تلوار کے زور پر مقابلہ کریں گے۔