داعش کے حوالے سے یہ سوال بہت سے علمائے کرام اور اہل فکر و نظر کی جانب سے اٹھایا جارہا ہے کہ فلسطین میں جاری کشیدہ حالات، وہاں کے باسیوں کی مظلومیت ساری دنیا پر عیاں ہے، اسلام اور کفر کے مابین سخت مقابلہ جاری ہے، ایسی حالت میں داعشی گروہ کی خاموشی کیوں؟ اور کسی طرح کا رد عمل کیوں نہیں آیا؟
ان حالات میں تمام اسلامی تنظیموں، جہادی تحریکوں حتیٰ کہ برائے نام مسلمانوں نے بھی صہیونیوں کی جانب سے فلسطین کی سرزمین پر جاری مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی یا پھر اپنے غم و غصے کا اظہار دیے جلا کر کیا، لیکن داعشی یا نام نہاد خلافت کا علم بلند کرنے والے جو ہر روز اسی بنیاد پر سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل کرتے تھے اور آج بھی کررہے ہیں، وہ لوگ جنہوں نے خلافت کے نام کی ایسی صدائیں لگائیں کہ لوگوں کے کانوں کے پردے پھٹ گئے، آج وہ لوگ کہاں ہیں اور کیوں خاموش ہیں؟
کیا داعشیوں کی جنگ صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف ہے؟ کفار اور یہودیوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں؟
کیا ان کے نزدیک ایک مسلمان کا قتل کسی یہودی کے قتل سے زیادہ افضل ہے؟
کیا یہ لوگ اندھے اور بہرے ہو گئے ہیں کہ اہل فلسطین کی حالت زار نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں؟
آپ کیا سمجھتے ہیں اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
سب سے پہلے تو ہم برملا کہتے ہیں کہ داعشی گروہ یہودیوں کے تعاون سے وجود میں آیا کیونکہ ایک نوکر و غلام کبھی بھی اپنے آقا کے خلاف بغاوت نہیں کرسکتا چہ جائیکہ اس سے خیانت یا جنگ کرے، یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ داعش امریکہ و یہود کی ملی بھگت سے وجود میں آئی ہے، وہی ان سے تعاون کرتے ہیں، کفار نے بارہا یہ اعتراف کیا کہ داعش کو ہم نے بنایا، لہذا وہ کیسے اپنے روحانی باپ سے جنگ کرسکتے ہیں؟
دوسری بات میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا داعش نے کبھی اپنے طور پر اسلامی ممالک جیسے شام، عراق اور فلسطین پر حملہ آور کفار کے خلاف کوئی کاروائی کی ہے جو آئے روز مسلمانان عالم کا قتل عام کررہے ہیں؟
اس حوالے سے ان کے ہاں غیر حربی اور عام کفار کو استثناء حاصل ہے، ان پر اگر حملے کیے بھی ہیں تو وہ جعلی نمائش کے سوا کچھ نہیں تھے، جن کے پس پردہ عوامل کچھ اور تھے۔
تیسری بات یہ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ داعش نے آج کس گروہ اور جماعت کو اپنے نشانے پر رکھا ہواہے؟
ان کے اہداف کیا اور کون ہیں؟
یہ بات واضح ہے کہ آج صہیونی اہل فلسطین پر جو مظالم ڈھا رہے ہیں وہی معاملہ داعش مسلمانان عالم سے روا رکھے ہوئے ہے، آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا یا سنا ہوگا کہ داعش کا ہدف علمی شخصیات کو قتل کرنا، مقدس مقامات منہدم کرنا، اللہ کے بندوں کو اللہ کی بندگی اور عبادت سے متنفر کرناہے۔
چوتھی بات یہ کہ آپ نے کبھی داعش کی جانب سے یہودیوں کے خلاف کوئی عملی اقدام یا زبانی بیان دیکھا یا سنا ہ؟
یہ کبھی نہیں ہوسکتا! یہ ناممکنات میں سے ہے۔
اگرچہ حماس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کی گئی بعض کاروائیوں کی داعش نے ذمہ داری قبول کی تھی مگر کچھ ہی وقت میں اس کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ وہ حملے حماس نے کیے تھے، داعش صرف اور صرف جھوٹ اور جعل سازی سے کام لے رہی تھی۔
پانچویں بات یہ کہ آج عالم اسلام نے پوری دنیا کے سامنےجن لوگوں کو قاتل و دہشتگرد کے طور پر متعارف کروایا ہے، جن کے نام سے ہی لوگ نفرت کا اظہار کرتے ہیں، جن کے مکروہ چہرے، انسانوں کے مال وجان کے دشمن کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں وہ داعشیوں کے سوا کون ہیں؟
چھٹی بات یہ کہ کیا انہیں علم نہیں کہ آج فلسطین وغزہ پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں، مسلمانوں کے خون سے دن رات ہولی کھیلی جارہی ہے؟
لیکن اس دکھاوے کے اسلامی گروپ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینی مجاہدین کے خلاف سازشیں کرنا شروع کر دیں۔
کیا ہم اس دو رخے سکے کو ابھی تک نہیں پہچانے؟ کیا ہم اب تک اس انٹیلی جنس اور یہودی گروپ کو پہچان نہیں پائے؟