ہر مقدس جدوجہد کو سب سے پہلے ایک مقدس وژن، ہدف اور واضح طریقہ کار کی ضرورت ہوتی ہے، یہ طریقہ دراصل جدوجہد کے تسلسل، استحکام اور کامیابی کا راز ہے جو تحریک کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے۔
افغانستان میں امارت اسلامی کی جدوجہد کی اصل بنیاد اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس حملہ آوروں کو شکست دینے کے پیچھے ایک مقدس مقصد تھا، قائدین کا اس مقصد پر کاربند رہنا اوراطاعت خداوندی تھا، اس جدوجہد کا مقصد شریعت کا نفاذ اور افغانستان کی آزادی تھا، کم سے کم وقت میں اس عالی ہدف تک رسائی صرف اور صرف مورال کی بلندی اور اپنی قیادت وطریقہ کار پر پختہ یقین واعتماد کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔
خوارج کے اجرتی قاتلین اور ان کے لیڈر بلکہ پوری داعش نے بھی اس تجربے کو دیکھتے ہوئے عوام کو اپنے نام نہاد مقاصد سے فریب دیا، جو ان کے امریکی اور مغربی آقاؤں نے انہیں سونپے ہیں، تاہم یہ خارجی رہنماؤں کی شیطانی سوچ ہے، ان مقاصد سے خود بھی دھوکے میں پڑے ہیں اور اپنے اجرتی قاتلین کو بھی فریب دے رہے ہیں۔
امارت اسلامی کا منشورکوئی نیا نہیں ہے، ان کا منشور اپنے قیام سے لے کر اب تک تمام لوگوں پر واضح ہے، جسے تقریباً تین دہائیاں گزر چکی ہیں، اس کے کارنامے اورکامیابیاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں، وہ کئی آزمائشوں میں سرخرو ہوئی ہے، اس کے تمام پیروکار بھی کسی طمع یا لالچ کے بغیر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں، اس راہ میں انہوں نے اپنی جان کی قربانی تک بھی پیش کی ہے۔
خوارج کی جانب سے اس مقدس نظریے کی تقلید کبھی کامیابی سے اپنے منطقی انجام کونہیں پہنچ سکتی، کیونکہ ان کے پیچھے استعماری ممالک اور فکری جنگوں کے پالیسی سازوں کا ہاتھ ہے، وہ چاہتے ہیں کہ جہاد جیسی مقدس جدوجہد کو بدنام کیا جائے۔
سب سے پہلے، داعش نے اپنا مقصد اسلامی خلافت کا احیاء ظاہر کیا، جس کے لیے انہوں نے کئی بار اپنا نام بدل ڈالا، انہوں نے عراق اور شام میں پے درپے شکستوں کے بعد اپنا نام خراسان شاخ رکھا۔
اس طرح انہوں نے امارت اسلامی کی صفوں سے بے دخل کی گئی تمام بدنام شخصیات، جمہوری حکومت کے اجرتی سپاہیوں، کمانڈروں کے ساتھ ساتھ خطے کےانٹیلی جنس اداروں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
جمہوری حکومت کے دوران اور امارت کے قیام کے بعد بھی امارت اسلامی کے جانباز مجاہدین نےان کی تمام مذموم مقاصد کو خاک میں ملادیا اور اب بھی وہ اپنے سرگرمیوں میں مکمل ناکامی سے دوچار ہیں۔
خلافت بلاشبہ امت مسلمہ کی ایک عظیم تمنا اور حقیقت پسندانہ تصویر ہے، لیکن اس تصویر کے رنگ جدوجہد، جہاد اورشہدائے اسلام کے مقدس لہو سے رنگین ہیں، خوارج اوران کے اجرتی قاتلوں کی جہالت، ان کے شکست خوردہ افکار و نظریات سے نہیں۔
ان کا دوسرا سب سے بڑا دعویٰ یہ ہے کہ وہ اسلام کے غلبے و قیادت کے لیے جدوجہد یا جہاد کر رہے ہیں، لیکن انھوں نے اپنے برے اعمال سے عوام اور دنیا کے مسلمانوں پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ تو جہاد سے واقف ہیں، نہ ہی اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہیں، اس کے برعکس یہ لوگ ڈاکؤوں، راہزنوں کی طرح علاقوں اور لوگوں کی املاک پر قبضے کرتے ہیں، اپنے جیب بھرنے کے لیے عوام کو اپنا غلام اوران کے اموال کو مال غنیمت سمجھتے ہیں، یہ لوگ اپنی نام نہاد جدوجہد میں ان حرکتوں کی وجہ سے بار بار ناکام ہوئے اورآج بھی عوامی نفرت ان کے آگے بند باندھے کھڑی ہے۔
یہ اپنے کرائے کے سپاہیوں اورپیسے کی نیت سے آئے ہوئے جوانوں سے جنت اور انعام کے خالی خولی وعدے کرتے ہیں، یہ دعویٰ اتنا ہی خالی اور جھوٹا ہے جتنا کہ ان کی بنیاد ہے، کیونکہ جس طرح ڈالروں میں تنخواہ دینے کے وعدے اور اس کے ساتھ ساتھ جنت کی خوشخبریاں، تضادات کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ ان کے مرے ہوئے افراد کو علاقے کی عوام اپنے قبرستانوں میں دفن کرنے کے لائق بھی نہیں سمجھتے، جس کی وجہ سے ان کی نعشیں کھائیوں اور پہاڑوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے تمام جعلی رہنماؤں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ان جیسے جاسوس اور اجرتی راہنماؤں کی بات ماننا بھی برا عمل ہے، کہ یہ نام نہاد راہنما غیروں کی پراکسی جنگ کو اسلامی رنگ دے کر نوجوانوں کی زندگیاں ضائع کررہے ہیں، کچھ خوفناک ویڈیوز اور تصاویر پھیلا کر وہ اپنے طریقے (دہشت گردی) کے مطابق خوف پھیلاتے ہیں اور اس کو اپنی کامیابی اور طاقت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
عوام کو سمجھنا چاہیے کہ یہ داعشی بھی اکیسویں صدی کی انٹیلی جنس اورصلیبی جنگوں کے سلسلے کی ایک ایسی کڑی ہے، جس کے پیچھے اسلام دشمن عناصر مقدس نعروں کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی اقدار اورشعائر کی توہین کرتے ہیں۔ تاکہ اپنے اجرتی قاتلوں کے ناپاک قدموں سے اسلامی احکامات کو داغ دار کر ڈالیں، لیکن اسلامی شریعت کی حفاظت کرنے والی امارت اسلامی کی جانباز افواج کبھی بھی ان کے مقاصد اور حکمت عملی کو افغانستان میں تعمیل نہیں ہونے دیں گی۔