گذشتہ تین سالوں میں جنگ کی لکیر یورپ کے کناروں، یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں فلسطین – اسرائیل تک پھیل چکی ہے، یہ دونوں جنگیں دنیا کے لیے، خاص طور پر امریکہ اور ان کے اتحادیوں کے لیے ترجیحات میں شامل ہیں۔
امریکہ، افغانستان سے قابض افواج کی شرمناک شکست اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ افریقہ میں اپنے وجود میں کمی کے باوجود ان علاقوں پر کنٹرول کے لیے ایک حکمت عملی رکھتا ہے، خاص طور پر وہ اپنی پراکسی (داعش) کی مدد سے ان علاقوں پر دباؤ برقرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ امریکہ کے مفادات کو محفوظ رکھ سکے۔
گذشتہ تین سالوں سے افغانستان میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ داعشی فتنہ پرور امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے اس کے حریفوں پر حملے کرتے ہیں؛ چائنیز ہوٹل، روسی سفارت خانہ اور دیگر ایسے اہداف پر حملے اور چینی سرمایہ کاروں کو دھمکیاں دینا اس بات کی واضح نشانیاں ہیں۔
داعشی گروہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ان علاقوں میں جہاں امریکی قابض افواج کا اثر کم ہو چکا ہے، خلا کو پر کرنے کے لیے کوشاں ہے، داعش کا مقصد وہاں مقامی سطح پر حکمرانی حاصل کرنا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں امریکہ کے حریفوں اور ان جہادی گروپوں کا مقابلہ کرنا ہے جو امریکی مفادات کے مخالف ہیں۔
اس وقت مضبوط معیشت عالمی سیاست میں ایک اہم ضرورت ہے، اگر کوئی طاقتور بننا چاہتا ہے تو اسے دنیا میں اہم اقتصادی راستوں اور وسائل پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔
ابوبکربغدادی کی ملیشیا اکثر مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں ان علاقوں کو فتح کرنے کی کوشش کرتی ہے جو ان کے آقاؤں کے اقتصادی ترقی کا سبب بنتے ہیں۔
یہ گروہ (مغربی ممالک) دہائیوں سے اقتصادی وسائل کو اپنے قبضے میں لینے کے لیے وسیع سرگرمیاں انجام دے رہا ہے اور ابھی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا کے ایسے علاقوں پر حکمرانی حاصل کر لیں جہاں اقتصادی وسائل موجود ہوں۔