اخلاق حسنہ کے پیکر، تقویٰ اور عاجزی کے بلند مینار، پہاڑوں اور صحراؤں کا شاہین۔
مولوی عبد الحق حقانی (نعمان) شہید ولد شاہ رسول، درہ خولہ گاؤں، قبیلہ شوخیل، ضلع ارباب زازی، صوبہ پکتیا کے رہنے والے تھے۔
۲۰۰۱ء میں جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کی مقدس سرزمین پر حملہ کیا، اس وقت آپ ضلع ارباب زازی صوبہ پکتیا سے مربوط روقیان ہائی سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ خارجی حملہ آوروں کے ظلم و بربریت کی وجہ سے آپ نے ملک سے ہجرت کر لی۔ زیادہ تر تعلیم جامعہ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے حاصل کی اور ۱۴۳۷ھ میں جامعہ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل ہو کر دستارِ فضیلت باندھی۔
فارغ التحصیل ہونے کے بعد صوبہ پکتیا، ضلع ارباب زازی کے علاقے حسن الگڈ کے مدرسہ جامعہ ابو ھریرہ (رضی اللہ عنہ) میں جہادی گروپ کی سرپرستی کے ساتھ مدرسہ کے مہتمم اور مدرس کے طور پر بھی مقرر ہوئے۔
امریکہ اور کابل میں اس کی غلام انتظامیہ کا ظلم و جبر دیکھنے کی وجہ سے جہاد کے مقدس راستے کو تدریس پر ترجیح دی اور جہاد کے گرم محاذوں کی جانب روانہ ہو گئے۔
بیس سالہ جہادی سفر میں ان تھک خدمت کی، جب امارت اسلامیہ افغانستان کی جانب سے پکتیا ولایت کے گورنر کے طور پر مولوی عبد الرحمن مسلم صاحب کو گورنر مقرر کیا گیا، اس وقت خوارج نے صوبہ ننگرہار میں اپنی سرگرمیاں کچھ نہ کچھ تیز کر دیں تھیں، گورنر صاحب نے مولوی عبد الحق حقانی (نعمان) سے کہا کہ اس دجالی گروہ کے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائیں۔
مولوی عبد الحاق حقانی شہید اس الہی مسئولیت کی ادائیگی کے ساتھ اپنے امیر کے امر کی تعمیل کرنے کی خاطر، اپنے علاقے کے جہادی یونٹ کے مسئول اور پھر اپنے جہادی گروپ کے سرپرست کی حیثیت سے اس مقدس جنگ میں پورے افتخار کے ساتھ پیش ہوئے۔
چونکہ مولوی عبد الحق حقانی جہاد کی مقدس راہ پر عسکری تجربہ کار اور انتھک خدمتگار کے ساتھ صبر و استقامت، غیرت و شجاعت کے بے مثال پیکر تھے، اس لیے انہوں نے انتہائی مردانگی اور غیرت کے ساتھ داعشی خوارج کے ساتھ جنگ کی، اور کثیر تعداد میں ان دین و مذہب کے ڈاکؤوں کو ختم کر دیا۔
وہ ہمیشہ جہاد کی راہ میں مجاہدین کے اتحاد و اتفاق کے بارے میں سوچتے رہتے، تاکہ یہ راہ روانِ حق ہمیشہ اپنے مابین شیطانی وسوسوں کو دور کرتے رہیں۔
اخلاق حسنہ کے پیکر، تقویٰ اور انکساری کے بلند مینار، اور پہاڑوں اور صحراؤں کے شاہین، خواطر و اسرار کی ان مٹ مثال، بہادری، شجاعت، غیرت، ہمت اور شیر دلی کا ٹھاٹھے مارتا دریا، ابراہیمی محبت کی نمایاں مثال، حمزہ، حنظلہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کی راہوں کا راہی، شہادت کے نعروں سے جس کی زبان نہ تھکے، دل و ذہن میں جو شعلۂ جوالا بھڑکا دے، بالآخر صوبہ ننگر ہار کے ضلع اچین سے مربوط علاقے کاخ میں خوارج کے مد مقابل ۱۰ ربیع الاول ۱۴۴۱ ھ شہادت کا اعزاز پا گیا۔
نحسبهه کذالک والله حسیبه
اس کی روح ہمیشہ پرسکون اور اس کی یادیں دلوں میں ہمیشہ پھولوں کی مانند مہکتی رہیں۔