غیرت، بہادری، اخلاق اور تقویٰ کا چمکتا ستارہ شہید سعید نور الرحمن (عبد اللہ) تقبلہ اللہ ولد حاجی تازہ گل مرحوم نے اپریل ۱۹۹۸ء میں ضلع زرمت صوبہ پکتیا کے علاقے سہاکو میں ایک جہاد پرور گھرانے میں اس فانی دنیا میں آنکھ کھولی۔
نور الرحمن عبد اللہ نے دینی تعلیم اپنی مسجد کے امام ملا صاحب سے حاصل کی اور اس کے ساتھ سھاکو ہائی سکول سے جدید تعلیم بھی حاصل کی۔
شہید عبد اللہ کو بچپن ہی سے جہاد کے مقدس فریضے سے بے پناہ لگاؤ تھا۔ جارحیت پسندوں کے مظالم اور ساتھیوں کی شہادتوں سے سبق حاصل کرتے رہے۔ بڑی بے صبری سے پہلی جماعت تک دینی تعلیم اور پانچویں جماعت تک جدید تعلیم مکمل کی۔
اس کے بعد امریکہ اور اس کے غلاموں کے خلاف جہادی جدوجہد پر کمر کس لی، اور جہادی جدوجہد کے لیے اپنے علاقے سے دیگر صوبوں میں چلے گئے اور وہاں بھی غیرت اور بہادری سے بھرپور کارنامے اپنی میراث چھوڑ آئے۔
کچھ عرصہ بعد نور الرحمن عبد اللہ شہید واپس اپنے علاقے آگئے اور اپنے علاقے زرمت میں ملا لیاقت عمر کی قیادت میں اپنا جہاد جاری رکھا۔
عبد اللہ شہید نے بہت بہادری اور شجاعت کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں کسی بھی طرح کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
میدان جنگ میں انہیں خصوصی شہرت حاصل تھی کیونکہ مغرب کے بہت سے غلاموں کو انہوں نے ہلاک کیا۔
ساتھیوں میں بھی اپنے تقویٰ، غیرت ایمانی، اخلاق اور انکساری والے نوجوان مشہور تھے، اس لیے ساتھی لمبا عرصہ ان کے ساتھ رہتے اور ان کی مجلس سے خصوصی محبت رکھتے۔
وقت گزرتا گیا، اسلام کے لبادہ میں اسلام کے سخت ترین دشمن داعشی خوارج کے خلاف ایک اور جدوجہد شروع ہو گئی، اور مجاہدین ایک ساتھ تین جنگوں میں مصروف ہو گئے۔ ایک جارحیت پسندوں کے خلاف، دوسری ان کے غلاموں کے خلاف اور تیسری خوارج کے خلاف۔ لیکن داعشیوں کے خلاف جنگ نئی تھی، صوبوں سے ان کے خلاف یونٹس تیار کیے گئے، اور اس مجاہد نے بھی بڑی بے صبری اور خوشی کے ساتھ اس جنگ میں حصہ لیا۔
اس جوانمرد مجاہد نے خوارج کے خلاف دانت کھٹے کر دینے والی لڑائی لڑی، بہت سے خوارج کو تہہ تیغ کیا، خوارج کو اس جوانمرد کے حملوں سے کہیں قرار نہیں ملتا تھا اور ان کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں۔ جتنا اس مجاہد کی جہاد سے محبت تھی اتنی ہی شہادت اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات سے محبت تھی۔ ہر حملے اور ہر گھات کے وقت دوستوں سے بار بار اپنی شہادت کے لیے دعا کرنے کا کہتے۔
بالآخر نور الرحمن عبد اللہ ۸ رمضان المبارک ۱۴۴۰ھجری کو خوارج کے ساتھ ایک دو بدو لڑائی کے دوران صوبہ ننگر ہار کے صدر مقام جلال آباد کے نواح میں شہادت کا اعلیٰ مقام پا گئے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی تکالیف کے بعد ان کا یہ ارمان پورا کیا اور اپنے دیدار اور ملاقات کے لیے خون میں رنگین کر کے بلا لیا۔
اسلامپال (ایک مجاہد) ان کی شہادت کی کہانی کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
خوارج پر کئی کامیاب حملوں کے بعد ایک اور حملہ کیا گیا جو کہ بہت کامیاب حملہ تھا، اس مجاہد نے اسی حملے میں کئی خوارج کو جہنم واصل کیا اور آخر کار عبد اللہ شہید سینہ تانے دشمن کی گولی اپنے سینے پر کھا کر شہید ہوئے، بجائے اس کے کہ وہ گولی کھا کر پیچھے گرتے، عبد اللہ شہید ایسی حالت میں سامنے زمین پر رب تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے۔ کئی مجاہدین کے سامنے عبد اللہ شہید کی یہ کرامت ظاہر ہوئی۔
اسلامپال کے بقول:
جب وہ سجدے کی حالت میں تھا تو میں نے اسے پکارا، عبد اللہ اٹھو، دشمن کو مارنے کا بہت اچھا موقع ہے، لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا، جب میں نے جا کر اسے دیکھا تو عبد اللہ کے جسم سے خون بہہ رہا تھا اور وہ شہید ہو چکا تھا۔ آپ کا جسد خاکی طویل عرصہ تک وہاں میدان جنگ میں ہی رہا اور پھر عید الفطر کے ۲۵ دن بعد ان کے آبائی علاقے زرمت میں لا کر سپرد خاک کر دیا گیا۔
ان کی روح پرسکون اور ان کی یاد ہمیشہ تازہ رہے۔
نحسبہ کذالک واللہ حسیبہ
انا للہ وانا الیہ راجعون