خوارج نے اپنی بدترین بربریت کے آغاز سے ہی نہ صرف یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دوستوں، خلافت اسلامیہ کے دور کے دو عظیم خلفاء، سخاوت و شجاعت کے نمونے، حضرت عثمان بن عفان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو شہید کیا، بلکہ دنیا کے کونے کونے میں اسلامی، جہادی اور دینی جماعتوں کے قائدین، علماء، مجتہدین، محسنینِ امت، داعیوں، اور دین اسلام کے چراغوں کے نازک جسموں میں بدترین درندگی کے خنجر پیوست کر دیے اور یہ چراغ ہمیشہ کے لیے بجھا کر امت مسلمہ کو تاریکیوں میں دھکیل دیا۔
خوارج جنہیں تاریخ کے اوراق میں "ظلمات (تاریکی) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، وہ وحشی گروہ ہے کہ جو ان اکابرین، علمائے کرام اور مجتہدین کو شہید کرتا ہے جو منبر سے خوارج کے کالے کرتوتوں سے پردہ اٹھاتے ہیں اور امت کے بچوں اور بوڑھوں کو ان کی حقیقت آشکار کرتے ہیں۔ انہوں نے خلافت اسلامیہ کے نام پر جبر و استبداد کی حکمرانی کی، جہاد کے نام پر قتلِ عام کیا اور دعوتِ اسلامی کے نام پر مغرب کی خواہش کے مطابق افکار گھڑے۔
خوارج نے اسلامی عظمت کے آسمان کو چھونے والے نمرودی تیر کے ذریعے ایک اور دیانت، تقویٰ، علم، اجتہاد اور دعوت کے روشن ستارے کو شہید کر دیا۔
امامِ عزیمت شیخ رحیم اللہ حقانی نہ صرف افغانستان بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے علم، اجتہاد اور دعوت کا ایک نمونہ تھے۔
امامِ عزیمت خوارج کو بہت اچھی طرح سے جانتے تھے، انہوں نے اپنے منبر کے زینوں سے پوری امت مسلمہ کو ان سے روشناس کروایا۔
جب خوارج کو احساس ہوا کہ ان کا اصلی چہرہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں بلکہ کھل کر سامنے آ گیا ہے تو انہوں نے اس علم و دیانت کے اس پہاڑ کو ایسے حال میں ڈھا دیا کہ جب وہ منبر پر کھڑے ہزاروں طلبائے علم کو قال اللہ اور قال الرسول بیان کر رہے تھے۔
انہوں نے ہزاروں طلبائے علم کو یتیم اور ایک اور عالم اور محسنِ امت کو شہید کر کے عالم اسلام کو علمی دبدبے سے محروم کر دیا۔