افغانستان میں حکمران شرعی نظام ایک طویل جدوجہد کے بعد اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے وجود میں آیا۔ عقل کی جنگیں لڑنے والوں کو کبھی یقین نہ تھا کہ امارت اسلامیہ اور شرعی نظام پھر سے اتنی واضح اور فیصلہ کن فتح کے نتیجے میں قائم ہو جائے گا۔
اس نظام کی حفاظت اور اس کا تسلسل بھی اللہ کی مدد و نصرت سے ہی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اس وقت تک مسلمانوں کے ساتھ ہوتی ہے جب تک مسلمانوں میں گناہ بالخصوص اجتماعی گناہ موجود نہ ہوں۔ اجتماعی گناہوں میں سے ایک اختلاف بھی ہے۔ مسلمانوں کا اچھا امیر شرعی نظام کی حفاظت کے لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نصرت پر بھروسہ کرتا ہے، اور اچھی طرح سمجھتا ہے کہ کن شرائط سے مسلمان اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے بیانات میں ہمیشہ ایسی نصائح پر توجہ مرکوز رکھتا ہے کہ جن پر اگر مسلمان عمل کریں تو اللہ کی مدد ہمیشہ ہمرکاب رہے گی، اور وہ خود کو اس سے محرومی سے بچا سکیں گے۔ اچھا امیر ہمیشہ نظام کی فکر میں رہتا ہے، ہمیشہ مسلمانوں میں وحدت کی فکر میں رہتا ہے، اپنی صفوں کو تقویت دینے کی فکر میں رہتا ہے، نہ وہ اپنی ستائش کرتا ہے، نہ غیروں کے نظریات و افکار سے متاثر ہوتا ہے، نہ درست راستہ دکھانے میں تاخیر کرتا ہے اور نہ ہی کسی کی ملامت کی پرواہ کرتا ہے۔ جب امیر اچھا ہوتا ہے تو اس کے ہر قول و عمل کا مقصد رضائے الٰہی ہوا کرتا ہے۔ اسے اپنی ذات کی بجائے مسلمانوں کے نظام کا غم ستاتا ہے، دنیا کی بجائے آخرت کے گھر کو ترجیح دیتا ہے، تو اس کے وزراء بھی لازمی طور پر اچھے ہوں گے۔ وہ ایسے وزراء کا انتخاب نہیں کرتا جو اس کے نقش قدم کی پیروی نہ کرتے ہوں۔
مسلمانوں کے درمیان بعض گروہوں کے لوگ جو فکری انحراف کے مرض میں مبتلا ہیں اور اغیار کے افکار سے متاثر ہیں ایسے بہترین امیر، بہترین وزراء اور بہترین نظام کی گھات میں لگے رہتے ہیں۔
ہر بیان اور ہر اقدام کے بارے میں طرح طرح کے تجزیے کرتے ہیں، اور اس نظام کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں بد گمانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مسلمانوں کو شک اور تردد کا شکار کرتے ہیں۔
ایسے گروہوں میں سے چند کا ذکر ہم ذیل میں کر رہے ہیں۔
۱۔ پارٹی پرست
یہ مسلمانوں کا وہ طبقہ ہے جن کے افکار جمہوریت سے متاثر ہیں، وہ مسلمانوں کی اعلیٰ مصلحت کی جگہ اپنے گروہ اور پارٹی کی مصلحت کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور وہی ان کے لیے زیادہ قیمتی ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں ریڈ آرمی کے خلاف جہاد کے ثمرات ضائع کیے، اختلافات میں پڑ گئے، شرعی نظام کو حاکم کرنے کی فرضیت کی سوچ کو درہم برہم کر دیا اور امت میں ایک ایسی ذہنیت پیدا کر دی کہ جہاد کے نتیجے میں شرعی نظام کبھی حاکم نہیں ہو سکتا اور جہاد و قتال جیسی مقدس جدوجہد کی بدنامی کا باعث بنے۔ یہ پارٹی پرست داخلی طور پر بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئے اور ان کے پاس امت کو پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ ان کے دلوں میں کینہ اور حسد پلتا رہتا ہے اور جب بھی انہیں موقع میسر آتا ہے اسلامی شرعی نظام کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں اور بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس کی تخریب کی کوششیں کرتے ہیں۔
۲۔ کفار سے معاہدہ کرنے والے
یہ ان لوگوں کا طبقہ ہے جنہوں نے سابقہ امارت اسلامیہ کے سقوط سے قبل مغرب کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے اور پھر حملہ آوروں کے آگے تسلیم ہو گئے تھے، یا پھر یہ وہ لوگ ہیں جو حملہ آوروں کے پاس قید میں تھے اور انہوں نے ایک معاہدے کے نتیجے میں رہائی حاصل کر کے سابق مفسد نظام کے سائے تلے زندگی گزارنا اختیار کر لیا۔ ان معاہدہ کرنے والوں نے حملہ آوروں کے خلاف جہاد و جدوجہد سے تحریری طور پر توبہ کی تھی اور یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ کبھی حملہ آوروں اور اس کے مفسد نظام کے خلاف کسی قسم کی مسلح جدو جہد و مخالفت نہیں کریں گے۔ وہ اسلام کے ایک عظیم فریضہ سے اپنے مزاج اور راحت طلبی کی وجہ سے تائب ہو گئے۔ انہوں نے ہمیشہ حاکم اسلامی شرعی نظام کے فیصلوں کو مزاجی فیصلے کہا اور دوسروں کو بھی اپنے جیسا تصور کیا۔ ان لوگوں کا قصور نہیں، اسلام اور شرعی نظام کے حوالے سے ان کا علم بہت سطحی ہے، ان کا سارا وقت مغرب والوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے گزرا، اور اب بھی ان کے مشیروں کے طرح کام کر رہے ہیں، اور جو بھی ایسا ہو گا وہ لازمی طور پر اسلامی شریعت کے فیصلوں کو اسی انداز میں پرکھے گا۔
۳۔ چاپلوس
یہ وہ لوگ ہیں جو نہ تو کسی قسم کے ٹھوس افکار کے حامل ہیں اور نہ ہی کوئی مستحکم حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی خواہشات و احساسات کے تابع ہیں، علمی طور پر بالکل جاہل ہیں، ہمیشہ دوسروں کی چاپلوسی کرتے ہیں۔ زیادہ تر ایسے لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں اور انہیں خوش آمدید کہتے ہیں کہ جن میں فکری انحراف، قوم پرستی، فرقہ پرستی اور مغرب پرستی جیسے امراض پائے جاتے ہوں۔
ہم اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کریں تو مذکورہ بالا تینوں گروہوں کی مثال وہاں مل جاتی ہے۔ اس لیے سچے مسلمانوں اور مجاہدین کو ان کے پراپیگنڈہ پر تشویش نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا پراپیگنڈہ حاکم اسلامی شرعی نظام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ اس کا نقصان صرف انہیں کو پہنچے گا۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
[یریدون لیطفئوا نورالله بأفواههم والله متم نوره ولو کره الکفرون.] سورة الصف – ۸
ترجمہ: یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دینا چاہتے ہیں۔ جبکہ اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلا کر رہے گا چاہے کفار کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔
اگرچہ مذکورہ بالا آیت کفار کے بارے میں نازل ہوئی لیکن اس کا اطلاق ہر اس شخص پر ہو سکتا ہے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہو لیکن فکری طور پر کفار سے متاثر ہو اور اس اثر کی وجہ سے اسلامی شرعی نظام پر تنقید کرتا ہو۔ وہ چاہے جتنی بھی کوشش کر لیں، حاکم اسلامی شرعی نظام کی روشنی اپنے پراپیگنڈہ سے بجھا نہیں پائیں گے۔ یہ روشنی پھیل کر رہے گی اور اپنی منزلِ مقصور تک پہنچ کر رہے گی۔