گزشتہ روز پاکستان کے وزیر دفاع نے ایک ٹی وی پروگرام میں دعویٰ کیا کہ افغانستان کی امارت اسلامی نے وزیرستانی مہاجرین کی منتقلی کے لیے دس ارب پاکستانی روپے کا مطالبہ کیا ہے، یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر پاکستانی حکومت کی جانب سے اس خاص کھیل کو بے نقاب کرتا ہے جسے اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور عالمی امداد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جھوٹا دعویٰ نہ صرف پاکستان کے داخلی مسائل کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس ملک کی مسلسل سازشوں اور عالمی برادری کو دھوکہ دینے کی کوششوں کی جانب بھی واضح اشارہ ہے۔
پاکستان طویل عرصے سے خود کو مظلوم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کبھی وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خود کو دنیا کا سپاہی ظاہر کرتا ہے، کبھی پناہ گزینوں کے بوجھ کی وجہ سے عالمی امداد طلب کرتا ہے اور کبھی اپنے معاشی بحران کا الزام دوسرے ممالک پر لگاتا ہے۔ یہ تازہ دعویٰ بھی اس طویل ڈرامے کا ایک حصہ ہے، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر وزیرستانی پناہ گزینوں کو خطرہ کے طور پر پیش کرکے دنیا سے مدد کی درخواست کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اگر حقائق دیکھے جائیں تو پاکستان کے معاشی حالات اس حد تک خراب ہیں کہ ان سے دس ارب روپے کا مطالبہ غیر منطقی اور بے معنی لگتا ہے۔
یہ ملک عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) سے قرض حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، حتیٰ کہ وہ ان کی اجازت کے بغیر اپنی اقتصادی پالیسی بھی نہیں بناسکتے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مسلسل گرتی جارہی ہے، ملک میں مہنگائی کی سطح تاریخ کی بلند ترین حد تک پہنچ چکی ہے اور عوام اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں۔
لیکن اس کے بجائے کہ پاکستان اپنی مشکلات کو تسلیم کرے اور اصلاحات کے لیے اقدامات کرے، وہ عالمی سطح پر خود کو ایک بے کس اور مظلوم کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان جیسے ہمسایہ ملک پر الزامات عائد کرتا ہے۔
پاکستانی حکام کی جانب سے ایسے بے بنیاد دعوے کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انہوں نے اربوں ڈالر وصول کیے، اس طریقے سے حقیقت میں انہوں نے خطے میں دہشت گردی کو مزید ہوا دی۔ داعش اور دیگر امن دشمن گروپوں کو انہوں نے پناہ گاہیں فراہم کیں اور ان کی ہر طرح سے امداد بھی کی؛ افغانستان کی امارتِ اسلامی کے تمام ترجمانوں نے پاکستان کے اس بے بنیاد دعوے کو مسترد کیا اور واضح کیا کہ نہ تو ایسی کوئی درخواست کی گئی تھی اور نہ ہی پاکستان کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ اس سے ایک ارب پاکستانی روپے کی توقع کی جاسکے، امارت اسلامی کے حکام نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی حکام صرف اپنے داخلی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے دوسرے ممالک پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں۔
پاکستان نے گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی برادری کو غلط معلومات فراہم کرنے اور مختلف بہانوں سے مالی امداد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
اب عالمی اداروں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کے ایسے دعوے صرف اپنی اقتصادی ناکامیوں اور سیاسی مشکلات کو چھپانے کی کوششیں ہیں۔ اس کے بجائے کہ پاکستان اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے، یہ ملک بار بار دیگر ممالک پر الزامات عائد کرنے اور عالمی امداد حاصل کرنے کے لیے از خود مسائل پیدا کرنے کی پالیسی اختیار کے لیے کوشاں ہے۔
عالمی برادری کو پاکستان کے ان رویوں پر مزید اعتماد نہیں کرنا چاہیے اور پاکستان کو اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری خود قبول کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔
ہم پاکستان کے وزیر دفاع سے کہناچاہتے ہیں کہ آپ کا ملک دنیا بھر میں خیرات طلب کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے، جو ہر سال عالمی مالیاتی فنڈ (IMF)سعودی عرب، چین اور دیگر ممالک سے قرضوں اور امداد کے لیے مسلسل درخواستیں دیتا ہے۔ آپ کی معیشت دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے اور آپ کی عوام بھوک اور بیروزگاری کے ایک نہ ختم ہونے والے بحران میں زندگی گزار رہے ہیں، ایسے میں جب آپ اپنے قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت نہیں رکھتے اور عالمی امداد کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سے اربوں روپوں کی درخواست کی جائے؟
حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنی روزمرہ ضروریات کے لیے دیگر ممالک کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں، مگر پھر بھی خود کو "سخی” کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
پہلے اپنی معیشت کو درست کریں اور اپنی عوام کو انسانی بنیادی سہولیات بہم پہنچانے کی صلاحیت حاصل کریں، پھر دوسروں کو کچھ دینے کا دعویٰ کریں۔