کم و بیش ڈیڑھ سال ہو چکا ہے جب سے پاکستانی اقتدار ایک بار پھر عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ جا چکا ہے۔ پاکستان پر حاکم انتظامیہ ہر میدان میں افغانستان کو کمزور اور بدنام کرنے میں کمر کس چکی ہے۔ سیاسی اور انٹیلی جنس میدان میں اگرچہ پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ نے ہاتھ روک رکھا ہے لیکن معاشی، معاشرتی اور صحافتی میدانوں میں اس نے واضح طور پر افغانستان کو کمزور کرنے، افغانوں کو ہراساں اور بدنام کرنے کا کام شروع کر رکھا ہے۔
پاکستانی حکام اور اصلی حکمرانوں (فوجی جرنیلوں) کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے اقتدار اور بقا کی خاطر کسی بھی حد کو پھلانگ سکتے ہیں، نہ اسلام ان کے لیے اہم ہے، نہ انسانیت، نہ ہمسائیگی، اور نہ عالمی قوانین۔
پاکستانی حکومت اور غریب عوام پر حاکم فوج نے دوبارہ طاقت میں آنے کے ساتھ ہی افغانستان کے ساتھ معاشی تعلقات خراب کر لیے، افغانستان کی برآمدات کے آگے رکاوٹیں ڈالیں، پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو سخت بدنام کیا گیا اور ان پر غلط کاموں کے الزامات لگائے گئے اور پھر انہیں انتہائی خستہ حالی میں افغانستان روانہ کر دیا گیا۔ اور سیاسی میدان میں افغانستان کی نئی حکومت پر عالمی سٹیج پر ان کاموں کا الزام لگایا جس میں وہ خود پوری طرح ڈوبے ہوئے ہیں۔
پاکستانی نظام کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں ان کی اصطلاح میں دہشت گرد گروہ موجود ہیں اور انہیں حکومت کی حمایت حاصل ہے، حالانکہ انہوں نے خود افغانستان کے خلاف خوارج کے بدنام زمانہ گروہ کی، اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے، حمایت شروع کر رکھی ہے اور انہیں بلوچستان میں محفوظ پناہ گاہیں اور مراکز فراہم کر رکھے ہیں۔ بلوچستان کے مراکز داعشیوں کے لیے اس حد تک مؤثر اور محفوظ ہو چکے ہیں کہ اب وہ خوارج کی قیادت کو امارت اسلامیہ افغانستان کے آپریشنز سے بچانے کے لیے ملجہ و ماوی بن چکے ہیں۔ ان کے تمام سرکردہ افراد وہاں منتقل ہو چکے ہیں اور ماسکو کروکس ہال پر حملے سمیت یورپ میں حملوں کی منصوبہ بندی وہی سے کی گئی۔
حالیہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی نظام نے صرف خوارج کو محفوظ پناہ گاہیں دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ اب اس کی کوشش ہے کہ اپنی "آزادی” میں برطانیہ کے ساتھ امریکہ کو بھی شامل کر لے اور اپنی سرزمین پر اسے ، خطے کے ممالک بالخصوص افغانستان کو دبانے کے لیے اڈے فراہم کرے۔ امریکہ کو بھی پاکستان کی کمزوری کا علم ہے، اڈوں پر راضی کرنے کے لیے وہ اب پاکستان کو میٹھی گولی دے رہا ہے اور امریکی حکومت نے کانگریس میں پاکستان میں "جمہوریت کی تقویت” اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ۱۰۱ ملین ڈالر فراہم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اگر یہ پیسے حاصل ہو جاتے ہیں، تو پاکستانی فوج ۲۰۰۰ کی دہائی کی طرح پھر سے امریکی فوج کے گشتی کتے کی حیثیت اختیار کر لے گی، ہر حکم کے آگے دم ہلائے گی اور افغانستان کے حوالے سے اس کے اعمال و افعال اخلاقی حدوں سے مزید تجاوز کر جائیں گے۔ ہاں یہ ہو گا کہ مظلوم پاکستانی عوام کو ان کے قہر سے کچھ امان حاصل ہو جائے گا۔