گزشتہ تین سالوں میں، شہباز شریف کے دوسرے دورِ حکومت تک، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ رہے، افغانستان میں امریکہ کی شکست کا اثر اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر بھی پڑا، کیونکہ افغانستان پر حملے کے لیے پاکستان نے اپنی فضائی اور زمینی حدود اور سرزمین امریکہ کے حوالے کر رکھی تھی، اور افغانوں کو قتل کرنے کے کھیل میں پاکستانی حکومت نے خوب نفع کمایا اور اس انتشار سے اپنے مفادات حاصل کیے۔
تاہم رواں سال فروری ۲۰۲۴ء کے انتخابات اور مارچ میں شہباز شریف کی نئی مخلوط حکومت کے آنے کے ساتھ ہی شریف نے امریکہ کے ساتھ پرانے تعلقات اور دوستی کی تجدید کی کوشش شروع کی۔
مذکورہ ملک کے آرمی چیف عاصم منیر نے امریکہ کا ۱۲ روزہ دورہ کیا، اور امریکی فریق کے ساتھ جامع اور تعمیری مذاکرات کیے تاکہ مردہ حال معاشی، سیاسی اور سکیورٹی صورتحال کے لیے چندہ اور ملک کے لیے دوسروں کی بربادی کے نئے منصوبے حاصل کر سکے۔
پاکستان، جس کی سکیورٹی صورتحال دن بدن ابتر ہوتی جا رہی ہے، معاشی صورتحال کی ناکامی اور بحرانی صورتحال سے نکلنے کے لیے اور اس کے علاوہ سکیورٹی صورتحال پر قابو پانے کے لیے امارت اسلامیہ افغانستان پر دباؤ ڈالنے کے حوالے سے امریکہ اور تاجکستان سے داعشی خوارج کے منصوبے کو اپنانے پر رضامند ہو گیا۔
ان تینوں ممالک کے درمیان گرمجوشی کا آغاز شہباز شریف کی حکومت میں ہوا۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ایشیا کے لیے قائم مقام انڈر سیکریٹری جان بس اور دیگر نے پاکستان کے دورے کیے، اس کے علاوہ کراچی میں امریکہ اور پاکستانی فورسز کے درمیان بحری مشقیں بھی ہوئیں۔ دوسری جانب پاکستان نے گزشتہ ماہ "عزمِ استحکام آپریشن” کا اعلان کیا اور اعلان کے ایک ہفتہ بعد پنجاب میں امریکہ کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں بھی کیں، جو گزشتہ روز پاکستانی فوج کی دو ہفتوں کی تربیت اور مختلف شعبوں مٰں تعلیم کے بعد اختتام کو پہنچیں۔
پنجاب اس کے ذریعے خطے کے ممالک ایران، چین اور روس کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان تعاون اور خطے میں بڑے منصوبوں اور مشترکہ تعاون کے نفاذ میں رکاوٹیں اور چیلجنز پیدا کر سکتا ہے۔
اسی دوران چار روز قبل پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے تاجکستان کے صدر سے ملاقات کی ، انہوں نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد اور افغانستان میں ایک جامع حکومت کے قیام پر زور دیا۔
کس دہشت گردی کی وہ بات کر رہے ہیں؟ خود تاجکستان داعشی خوارج کو بھرتی کر رہا ہے اور پاکستان انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔
امریکہ اور پاکستان کی خطے کے لیے مشترکہ فوجی مشقیں اور بالخصوص ڈیورنڈ کی فرضی لائن پر بد امنی سے ان ممالک کو ایک پیغام دینا مقصود ہے کہ جو امارت اسلامیہ افغانساتن کے ساتھ عمومی تعلقات اور مشترکہ تعاون کرنے کے خواہشمند ہیں۔
وہ نہیں چاہتے کہ افغانستان میں ایک اپنے پیروں پر کھڑی مضبوط مرکزی حکومت قائم ہو اور امریکہ بھی اس کی اجازت نہٰں دیتا کہ ایشیا میں جغرافیائی لحاظ سے اہمیت کے حامل افغانستان کا اقتدار اور تعلقات اپنے سابق حریفوں (رو، چین اور ایران) کے لیے چھوڑ دے۔