اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید دنیا نے سپر پاورز کی آڑ میں، بھیڑیوں کو بھیڑ بکریوں کے لبادے میں چھوڑ رکھا ہے جو ہر وقت شکار کی تلاش میں رہتے ہیں اور جو ہر وقت اپنے مفادات کی تلاش میں اور قوموں کو کمزور کرنے کے در پے رہتے ہیں۔
امریکہ ہر وقت شر کے لیے کوشاں رہتا ہے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی قسم کے شر و فساد سے کبھی گریز نہیں کرتا۔ عراق اور افغانستان میں، اس سرزمین کے بعض خود غرض لشکروں کے تعاون کے ساتھ برسوں تلک جنگ چھیڑے رکھی، یہاں تک کہ اپنے برے اور بزدلانہ اعمال کے ساتھ ہزاروں لوگوں کا قتلِ عام کر کے اس سرزمین سے نکل گیا، لاکھوں لوگ ان کی وجہ سے مصائب کا شکار ہوئے اور فقر و فاقے اور سختیوں نے لوگوں کو تھکا کر رکھ دیا۔
بہرحال، بات یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان کے خلاف ہر طرح کے اقدامات کے باوجود پاکستان آج بھی اس پر اعتماد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کے مقابل اس کے تعاون کا خواہاں ہے۔
حال ہی میں اطلاع ملی ہے کہ پاکسان مئ اعلیٰ سطح کے امریکی فوجیوں کے اشتراک کے ساتھ افغانستان کی سرحد پر تحریک طالبان کے خلاف جنگ کے لیے فوجیوں کو لا بٹھایا ہے اور علاقائی میڈیا اداروں کا بھی خیال ہے کہ اس اقدام کا محرک ٹی ٹی پی کا وجود ہے۔
یہ سب ایک ایسے حال میں ہے جب پاکستان خود ۱۱۵ بلین ڈالر کا مقروض ہے جس کی وجہ سے اکیلے جنگ جاری رکھنا اس کے بس سے باہر ہے اسی لیے وہ امریکہ سے تعاون چاہتا ہے۔
واضح ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے بغیر کبھی کسی سے تعاون نہیں کرتا، اور اپنے مقاصد و اہداف کے تحفظ کی خاطر ہر قسم کی تخریب کاری اور بے جا قتل عام میں ملوث ہے۔
لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکہ کو ماضی کی طرح عظیم شکست کا سامنا کرنا ہو گا۔ ان شاء اللہ
پاکستان کو بھی ان لوگوں کے کرتوتوں اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے جو امریکہ کے ساتھ تعاون اور دوستی میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن بالآخر سب پر واضح ہو گیا کہ کیسے وہ تنہا رہ گئے اور مختلف مسائل و مصائب میں گھر گئے۔