جب ۲۰۰۱ء میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کیا اور افغانستان کی زمین اور فضا پر قبضہ کر لیا، مقتدر حکومت کے بیشتر افراد شہید ہو گئے اور دیگر کو قید خانوں کی اذیت ناک کال کوٹھڑیوں میں ڈال دیا گیا، اس وقت داخلی ایجنٹوں اور اکثر بیرونی ممالک نے امریکہ کے اس قبضے کو خوش آمدید کہا۔
چونکہ امریکی پراپیگنڈہ بہت مؤثر تھا اس لیے مقابلے کی سوچ ایک پاگل پن اور خیال تصور تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ فرعونِ وقت کے خلاف موسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ابھرنے لگے۔ تب افغانیوں کے ساتھ بعض پاکستانی شہری اپنی ایمانی ذمہ داری ادا کرنے کی خاطر افغانیوں کے ساتھ مل گئے اور امریکیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
پاکستانی فوج ہمیشہ مغرب کے اشاروں پر ناچتی رہی ہے، مغرب کے ایماء پر سوات اور وزیرستان کے مسلمانوں پر اسرائیل جیسے مظالم ڈھائے، انہیں مظالم کا نتیجہ تھا کہ پاکستانی مجاہدین تحریک طالبان پاکستان (TTP) میں تبدیل ہو گئے اور انہوں نے فوج کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔
اس وقت استاد یاسر (فک اللہ اسرہ / تقبلہ اللہ) نے پاکستانی فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے اپنی پالیسیاں نہیں بدلیں تو تمہارے گھر سے ایسے جوانمرد پیدا ہوں گے کہ جن کو قابو کرنا تمہارے بس سے باہر ہو گا۔
بہرحال پاکستان کی غلط پالیسیوں اور مظالم کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) منظرِ عام پر آئی۔ اب اگر وہ خیبر پختونخواہ اور دیگر علاقوٰں میں امریکی فوجی مشقیں کرواتے ہیں اور اپنی سرزمین پر غیر ملکی فوجیوں کو جگہ دیتے ہیں تو اس کا نتیجہ ان کے لیے بہت بھیانک نکلے گا۔
یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق پاکستانی فوج کے حالیہ فیصلوں کے نتیجہ میں پاکستانی طالبان یاٹی ٹی پی کی کاروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کی شریف عوام نے اگر فوج کے ایسے فیصلوں کے آگے بند نہیں باندھا تو فوج کی لگائی گئی اس آگ کے شعلے ان تک بھی پہنچ جائیں گے۔