مبارز احمدی
حال ہی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان مسائل کے ایک سلسلے کا آغاز ہوا، یہ ملک جب بد امنی کا شکار ہوا تو یہاں بھی خال خال واقعات کی رپورٹس بڑھنے لگیں اور روز بروز پڑوسی ملک کی بھی ہانڈی ابلنے لگی۔
پاکستان کی مقتدر فوج کی حکومت میں کبھی ہوائی اڈہ نشانہ بنتا ہے، کبھی بحری فوج کی بیس پر گولے برستے ہیں، کبھی سکیورٹی مراکز تباہ ہوتے ہیں تو کبھی فوج کے خلاف عوامی احتجاج زور پکڑ لیتا ہے۔
وہاں اب نہ تو تاج و تخت کے مالک پر امن زندگی گزار رہے ہیں، نہ بیابانوں میں گھومنے والے چرواہوں کو آرام حاصل ہے۔ یہ فوج بھی ہمارے سابق حکمرانوں کی طرح ہے۔ ان کی طبیعت اس دن بہت ہشاش بشاش ہوتی ہے جس دن تابوتوں کا کاروبار زوروں پر ہو۔
فوج اب بھی اپنی بقا کی خاطر موجودہ حکومتی عہدیداروں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتی ہے۔ گھر کے اندر کوئی پتھر بھی مار دے تو بس غریب اور بے بس پڑوی کو تھپڑ مار دیا۔ کون قصور وار ہے اور کون بے قصور اس کی پرواہ نہیں بس اپنا دل ٹھنڈا کرنا مقصد ہے۔
وہاں اگر بدامنی پھیلی ہے تو اقتصادی حالت بھی اس قدر خراب ہے کہ بے روزگاری کی وجہ سے معاشرے کا ہر فرد شناختی کارڈ رکھنے پر بھی پچھتا ہی رہا ہے۔
اقتدار اور کرسی کی رسہ کشی بھی اپنے اختتام کو پہنچی لیکن پھر بھی آپس میں دل صاف نہیں اور ہر کسی کو انتقام کی چھری اپنے بھائی کے خون میں رنگی نظر آ رہی ہے۔
آئے تو پنجابی حکومت کے برے دن ہیں لیکن سب سے زیادہ تکلیف ان پشتونوں کو ہو رہی ہے جو پشتونوں کے حقوق کے نام پر نمائشی مظاہرے کر رہے تھے۔
وہ اس لیے خوفزدہ ہیں کہ ایک طرف فوج سے ان کے خفیہ تعلقات منظر عام پر آتے ہیں تو دوسری طرف سیکولر ازم کے نظریے کی ترویج کو اس طرح عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا جیسا کہ ہدف آئی ایس آئی نے دیا تھا۔
وہ اگرچہ آخر تک عظیم افغان کے نعرے لگاتے رہے لیکن اس نعرے بازی کے آخری مرحلے تک پہنچنے تک پنجابی ریاست کے اصلی مخالفین کے خلاف لڑنے لگے۔
دوسری طرف بلوچ قوم پرستوں نے بھی لڑائی کا سہارا لیا ہے اور فوج پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔
قبائلی علاقوں کی حالت بھی فوج کے کنٹرول سے باہر ہے، ان علاقوں میں بسنے والی قومیں نہیں چاہتیں کہ ایک کمزور حکومت کے سائے میں زندگی گزاریں، وہ پھر سے حقیقت کو سمجھ چکے ہیں اور اب کرائے کے ٰمنظوروںٰ کی حمایت کرنے کی بجائے ایک آزاد پشتونستان کے لیے بھرپور جدوجہد کرنے لگے ہیں۔
یہ ملک اپنی بین الاقوامی ساکھ بھی کھو چکا ہے، قرضوں کا مسئلہ حل ہوتا نہیں، سیاسی حیثیت بھی صفر تک پہنچ چکی، آئے روز یا کسی ملک کی چاپلوسی بڑھ جاتی ہے، یا جاہلانہ طور پر کسی سے جھگڑا مول لے لیتا ہے، یا پڑوسیوں کی جانب کرائے کے جنگجو بھیجنے اور ان کی فنڈنگ کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی بھی اب اس ملک سے عاجز آ چکے، اب نہ تو مزید فنڈنگ کے لیے کوئی بہانہ باقی بچا ہے اور نہ ہی مغربی مفادات کے تحفظ میں کوئی کردار، کہ اسے خطے میں ایک اچھے کھلاڑی کے طور پر وہ دیکھیں۔
ساری کہانی دو نکات میں حل ہو سکتی ہے۔ یا تو امریکہ دھوکے سے بننے والے پاکستان نامی جغرافیہ کو پھر سے مستحق پڑوسیوں میں برابر تقسیم کر دے یا پھر پاکستانی فوج اپنی قوم کی مرضی کے سامنے گھٹنے ٹیک دے تاکہ خارجہ اور داخلہ پالیسی کو بہتر بنانے کا کام معاشرے کے صالح افراد کر سکیں۔
اگر ان دونوں میں سے کچھ نہیں ہوتا تو پھر سمجھنا چاہیے کہ مغرب پاکستان کی دیوانگی اور محتاجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چاہتا ہے کہ خطے میں نفاق اور بدبختی کے بیج بو دے اور اپنے مفادات تیسرے راستے سے حاصل کر لے۔
ماشاءاللہ بہت خوب سو فیصد حقیقت ہے
دعا ہے اللہ تعالیٰ خراسان سے خلافت کو جلد پھلائے، افغانستان سے پاکستان،ایران پوری دنیا پھر انشاء اللہ
ہم پاکستان میں منتظر ہیں مجاہدین کے لشکر میں شامل ہونے کیلئے