اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے عثمان جدون نے ایک مرتبہ پھر اپنی ملک کی ناکامیوں کا ملبہ افغانستان پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ امارتِ اسلامی افغانستان نے ٹی ٹی پی کو سہولتیں اور جدید اسلحہ فراہم کیا ہے اور یہ کہ ٹی ٹی پی کے چھ ہزار ارکان افغانستان میں مقیم ہیں۔
ویسے تو پاکستانی حکومت کے نمائندے اور وزراء اس طرح کے بے بنیاد بیانات ہر چند دن بعد دیتے رہتے ہیں، جس کا مقصد اپنے داخلی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہوتا ہے۔
افغانستان ایک خودمختار ریاست ہے جو دیگر ریاستوں کی خودمختاری کا احترام کرتی ہے اور اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی؛ پاکستانی حکومت افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کی موجودگی کا دعویٰ تو کرتی ہے مگر کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکتی کیونکہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین پر نہیں بلکہ پاکستان کے اندر موجود ہے اور وہیں سے اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ٹی ٹی پی کی تمام قیادت وزیرستان سے سوات تک اپنے مراکز میں موجود ہے، ماضیِ قریب میں ان کے کئی کمانڈر اپنے علاقوں کے اندر پاکستانی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں نشانہ بھی بن چکے ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی نمائندے کا یہ دعویٰ کہ ٹی ٹی پی کو جدید اسلحہ افغان حکومت نے فراہم کیا ہے، مکمل طور پر بے بنیاد ہے کیونکہ جدید امریکی اسلحہ مشرق سے مغرب تک تمام بلیک مارکیٹس میں دستیاب ہے اور کوئی بھی شخص اسے با آسانی حاصل کر سکتا ہے۔ اس اسلحے کا ایک بڑا حصہ کراچی بندرگاہوں پر توڑے گئے اُن کنٹینرز سے چرایا گیا ہے جنہیں پاکستانی فوج کے جرنیلوں نے توڑ کر بلیک مارکیٹس میں فروخت کیا تھا۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی داخلی ناکامیوں کی ذمہ داری افغانستان پر ڈالنے کی کوشش نہ کرے، ٹی ٹی پی پاکستان کا اپنا مسئلہ ہے جو اُس کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔ اس لیے افغانستان پر الزام لگانے کے بجائے پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے کرتوتوں پر غور کرے۔
آپ کو افغانستان میں مسائل، ناامنی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تو نظر آتی ہیں لیکن وزیرستان سے بلوچستان تک انسانی حقوق کی خراب صورتحال اور اپنے مظالم دکھائی نہیں دیتے.
آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی