کسی بھی معاشرے، تنظیم یا حکومت میں اچھائیاں اور برائیاں، اسی طرح اچھے اور برے لوگ بھی پائےجاتے ہیں، یہاں اہم بات یہ کہ ان کے درمیان تمییز کی جائے، انہیں پہچانا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ دین ومذاھب میں بھی حق وباطل،سچے وجھوٹے پائے جاتے ہیں، ان کا معیار حق وباطل ہونا قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں جابجا واضح طور پر مذکور ہے۔ جو لوگ قرآن کریم پر ویسے ہی عمل پیرا ہیں جیسے آپ علیہ السلام اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کاربند تھے، اسی طرح قرآن کی تشریح وتفسیر اسی طرح کریں جس طرح آپ علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کرام نے کی تھی،ایسے لوگ سچے اور حق پر قائم ہیں۔
اس کے برعکس جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فرامین اور آپ علیہ السلام کی احادیث، ارکان اسلام، صحابہ کرام کے منہج کو بدل ڈالیں، دین میں تحریف و باطل تاویل کریں ایسے لوگ روئے زمین کے بدترین اور باطل لوگ ہیں۔
عصر حاضر میں جو لوگ خوارج(داعش) کے نام سے جانے جاتے ہیں،یہ لوگ اپنے عمل پر قرآن یا حدیث میں سے کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کرسکتے جس سے شرح صدر حاصل ہو، جس کے بعد مجبور ہوکر وہ اپنے باطل دعوے کے لیے بطور ثبوت یہ کہہ دیتے ہیں کہ طالبان،القاعدہ اور دیگر جہادی تحریکیں حق پر قائم نہ تھیں جس کی وجہ سے ہم ان سے الگ ہوئے اور اپنے لیے الگ نظم بنایا۔ جبکہ صورتحال اس طرح ہے کہ طالبان، القاعدہ ودیگر جہادی جماعتیں مسلسل امت مسلمہ کے دفاع وخدمت میں جتی رہیں، توحید ورسالت کے تقاضوں سے سرمو انحراف کیے بغیر اپنے موقف پر ابھی تک قائم ہیں ان کے بالمقابل خوارج نے اپنے منہج کو بدل ڈالا اور دین اسلام کو بدنام کرنے کا سبب بنے۔
پہلے زمانے کے خوارج نے ایسی شخصیت سے اپنی راہیں جدا کیں جو اس زمانے کی افضل ترین شخصیت تھی، چوتھے خلیفہ راشدحضرت علی کرم اللہ وجہہ نہ صرف صحابی رسول،کاتب وحی تھے بلکہ وہ تو آپ علیہ السلام کے چچازاد،داماد، آپ کے ہاں پرورش پانے والے بھی تھے جنہیں آپ علیہ السلام نے اپنے اہل بیت میں شمار کیا، بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کا امتیاز بھی آپ کو حاصل ہے، ان تمام امتیازات کے باوجود خوارج آپ سے علیحدہ ہوکر آپ کے خلاف صف آراء ہوئے اور آپ پر کفر وارتداد کے فتوے لگائے۔ اس وقت بھی خوارج قرآنی آیات کی تاویل اپنے مفادات کے لیے کرتے تھے جیسے آج کے خوارج کا طریقہ کار ہے۔
جب سوشل میڈیا پر کسی داعشی یا جمہوریت پسند سے سامنا ہوتا ہے تو اس کا سارا زور اسی بات پر ہوتا ہے کہ طالبان اور القاعدہ اگر حق پر ہوتے تو داعش ان سے جدا نہ ہوتی، لیکن انہیں علم نہیں کہ کبھی ایک جماعت میں حق پرست وباطل پرست سب جمع ہوتے ہیں، ایسے میں اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا فرماتا ہے کہ جس کے نتیجے میں باطل پرست حق پرستوں سے جدا ہو جاتے ہیں، جیسے حضرت علی اور امیر معاویہ رضہ اللہ عنہما کے دور میں حکم یا ثالث بنانے کا وقعہ پیش آیا اور ہمارے زمانے میں امیرالمومنین ملا محمد عمر رحمہ اللہ کی وفات اور اس کے بعد صلیبی کفار سے صلح کا واقعہ۔
وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ[آل عمران: 140]
اور یہ تو دن ہیں، ہم انہیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں اور تاکہ اللہ ان لوگوں کو جان لےجو ایمان لائے اور تم میں سے بعض کو شھید بنائے اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔