داعش درحقیقت ایک انتہا پسند گروہ ہے جو اپنے ناروا اعمال کی وجہ سے امتِ مسلمہ کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا ہے، اس نے اسلام کے حقیقی اور معتدل پیغام سے غلط فائدہ اٹھایا اور اپنے شدت پسند اعمال کی توجیہ اسلام کے نام پر کی، جس کی وجہ سے امت کے لیے بڑے نقصان اٹھ رہے ہیں۔
داعش کے اعمال صرف عالمِ اسلام کے اندر محدود نہیں، بلکہ پوری دنیا میں یہ اسلام اور مسلمانوں کی ساکھ خراب کرنے کا سبب بن رہے ہیں، اس کی شدت پسندی کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کی پہچان انتہا پسندی اور تشدد کے ساتھ جڑ گئی ہے، مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کمزور پڑ گئی ہے، بہت سے اسلامی ممالک جنگوں، بد امنی اور عدم استحکام کا شکار ہو گئے ہیں اور خطے میں ترقی، تعلیم اور معاشی پیش رفت کی راہیں بند ہو گئی ہیں۔
اسی وجہ سے داعش کو امت مسلمہ کی ترقی، امن اور استحکام کے لیے ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے، اور اس کے خلاف جدوجہد کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔
اگر اب بھی داعش کو اپنی انتہا پسندی پر چھوڑ دیا گیا اور اس کے خلاف شدت اور عزم کا مظاہرہ نہ کیا گیا، تو امت مسلمہ کے لیے درج ذیل نقصانات پیدا ہوں گے:
۱۔ اسلامی تعلیمات کی تحریف
اگر داعش کو اپنی انتہا پسندی پر چھوڑ دیا گیا، تو وہ اپنے اعمال کی توجیہ اسلامی شریعت کے نام پر پیش کریں گے، اسلام کی حقیقی تعلیمات میں تحریف کریں گے، ان کے انتہاپسندانہ اعمال اسلام کے اچھے اور معتدل پیغام کو خراب کریں گے اور مسلمانوں کو بدنام کریں گے۔
۲۔ مسلمانوں کے درمیان اختلافات
اگر داعش کو اپنی انتہا پسندی پر چھوڑ دیا گیا تو یہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ لڑائیوں میں اضافہ کر دے گی جو امت مسلمہ میں اتحاد اور ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹ بنے گی، اس سے مسلمانوں کی وحدت اور قوت کو سخت نقصان پہنچے گا۔
۳ بد امنی اور عدم استحکام
اگر داعش کو اپنی انتہا پسندی پر چھوڑ دیا گیا، تو اسلامی ممالک میں جنگیں، عدم استحکام اور بد امنی کی سطح مزید بلند ہو جائے گی، یہ مسلمانوں کی زندگیوں، معاشی و معاشرتی ترقی کو متاثر کرے گی۔
۴۔ اسلام کی عالمی ساکھ کو نقصان
اگر داعش کو اپنی انتہا پسندی پر چھوڑ دیا گیا، تو عالمی سطح پر اسلام کو بدنام کرے گی اور غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں منفی تصور کی طرف راغب کرے گی، یہ اسلام کے پر امن پیغام پر پردے ڈال دے گی اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا کرے گی۔
۵۔ نسلِ نو کی ذہنیت کی خرابی
اگر داعش کو اپنی انتہا پسندی پر چھوڑ دیا گیا، تو یہ نوجوانوں کو اپنے انتہا پسند نظریات کی جانب راغب کرے گی، جس کے نتیجے میں نسلِ نو انتہا پسندی اور تشدد کی راہ اختیار کرے گی، یہ امت مسلمہ کے مستقبل کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
۶۔ بے گھری اور ہجرتیں
اگر داعش کو اپنے انتہا پسند نظریات پر چھوڑ دیا گیا، تو ان کی سرگرمیاں خطے میں بد امنی اور عدم استحکام کا باعث بنیں گی، جس کی وجہ سے لوگ بے گھر ہونے اور ہجرتیں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، یہ بے گھری خطے کے معاشی اور معاشرتی حالات کو مزید خراب کرتی ہے اور داخلی طور پر مایوسی اور بدحالی کا باعث بنتی ہے۔
۷۔ انسانی وسائل کا ضیاع
اگر داعش کو اپنے انتہا پسند نظریات پر چھوڑ دیا گیا، تو یہ جنگوں کے لیے نوجوانوں کو راغب کرے گی اور انہیں انتہا پسندی اور تشدد کی راہ میں قربان کرے گی، حالانکہ یہی نوجوان امت کے لیے ترقی اور مثبت تبدیلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں لیکن داعش کی انتہا پسندی کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں۔
۸۔ تعلیم و ترقی کی راہ میں رکاوٹ
اگر داعش کو اپنے انتہا پسند نظریات پر چھوڑ دیا گیا، تو اس کے زیر تسلط علاقوں میں تعلیم کو اہمیت نہیں دی جائے گی، اور وہ تعلیم کو انتہا پسند نظروں سے دیکھیں گے، وہ مدارس، مکاتب، جامعات اور سماجی مراکز کو تباہ کرے گی، جو کہ نسلِ نو کے تعلیمی حالات کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
۹۔ نفسیاتی اثرات اور ذہنی بیماریاں
اگر داعش کو اپنے انتہا پسند نظریات پر چھوڑ دیا گیا، تو ان کے ہاتھوں رونما ہونے والے تشد اور ظلم کی وجہ سے عوام پر گہرے نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے، بالخصوص بچے اور عورتیں سخت ذہنی مسائل کا شکار ہوں گے، جو کہ طویل مدت میں معاشرے کے لیے سنگین چیلنجز پیدا کریں گے۔
۱۰۔ اقتصادی نقصانات
داعش جنگ اور تخریب کاری کے ذریعے خطے کو معاشی نقصان پہنچاتی ہے، پیداوار، تجارت اور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچاتی ہے جس کے نتیجے میں پورے خطے کی معاشی ترقی رک جاتی ہے۔
۱۱۔ بین الاقوامی دباؤ اور سیاسی تنہائی
داعش اسلامی ممالک کے بارے میں عالمی حساسیت کو بڑھاتی ہے، جس کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک کی جانب سے اسلامی ممالک پر دباؤ اور پابندیوں میں اضافہ ہوتا ہے، یہ دباؤ معاشی، سیاسی اور معاشرتی مسائل کا باعث بنتے ہیں، جس کے نتیجے میں اسلامی ممالک کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں۔
اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ داعش کو اپنے انتہا پسند نظریات پر چھوڑ دینا، امت مسلمہ کے معاشرتی، معاشی، تعلیمی اور سیاسی ڈھانچوں کو شدید نقصان پہنچائے گا، جو اس امت کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔