فلسطین اور بالخصوص غزہ کے نام کے ساتھ ہی شہادت، زخم، قید اور مہاجرین کے الفاظ نے ایسا زور پکڑا ہے کہ یہ نام سنتے ہی مخلص مسلمانوں کے دل درد سے کانپ اٹھتے ہیں اور پھر بے بسی کے آنسو بہاتے ہوئے اپنے فلسطینی بھائیوں اور اہل غزہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، یہ بے بسی کی تصویرآخر کار جذبات کے قبرستان میں بھیج دی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس بار اسلامی تحریک مزاحمت اور حماس مجاہدین کے ایک اور مضبوط رہنما، ایک جنگجو، مجاہد اور صہیونی افکار کے خلاف ڈٹ جانے والے جبل استقامت شہید السنوار کی شہادت کی دردناک خبر توقعات کے خلاف نہیں تھی، بلکہ یہ اس مجاہد کی شہادت جیسی خبر تھی جو ہر لمحہ اپنے دشمن کی گولیوں اورجاسوسی کے ہمہ جہت جال کی زد میں ہوتاتھا۔
افغانستان میں بہت سے نیک سیرت نوجوانوں نے اس عظیم شخصیت کی شہادت کی دردناک خبر اور ان کی قابل تحسین آخری تصویر کو سوشل میڈیا میں صف اول میں رکھا؛ یہ تصویر واضح کررہی ہے کہ یہ جانباز مجاہد صیہونی اور قابض حکومت کے خلاف دو بدو جنگ میں شریک رہتاتھااوران تمام مفروضوں کی تردید کرتی ہے، جو دشمن کی جانب سے پھیلائی گئیں تھیں کہ امت مسلمہ کا یہ شیر حماس کی سرنگوں یا پہاڑوں میں چھپ کر اپنے جنگجوؤں کی قیادت کرتا تھا۔
موصوف رحمہ اللہ کے بارے میں اب تک بہت سے مضامین لکھے جا چکے ہیں اور ان کی قابل فخر یادیں دیگرمضامین میں بھی آئیں گی، لیکن ان کے بارے میں چند نکات زیادہ اہم ہیں:
1: مجاہدین کے مابین رہنے والے قائد؛
اپنی پروپیگنڈوں کے دوران، مغربی اور اسرائیلی میڈیا نے بارہا یہ خبریں دیں کہ شہید سنوار نے حملوں کے خوف سے سرنگوں اور حماس کے دیگر ٹھکانوں میں پناہ لی ہوئی ہے، لیکن اس کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ وہ حیران کن طورپر اپنے غازیوں کے ساتھ رہتے ہوئے صہیونیوں کے ساتھ دو بدو جنگ میں مسلسل شریک تھا۔
2: سیاسی اور عسکری میدان کا ہیرو؛
بعض ذرائع ابلاغ نے ان کا ذکر حماس اور اسلامی تحریک کے کرشماتی رہنما کے طور پر کیا ہے، جس میں حماس کے سیاسی منصوبے اور عسکری میدان میں مسلح جدوجہد کے زیادہ تر منصوبے ان کے ذہنی اختراع کا نتیجہ سمجھے جاتے ہیں۔اسرائیل کے عسکری حلقوں کی جانب سے انہیں حماس کی تمام کاروائیوں کا ماسٹرمائنڈ سمجھاجاتاتھا، اس کے وجودہی سے یہویوں میں خوف پھیلاہواتھا، یہی وہ شخص تھا جس نے ان کی راتوں کی نیند حرام کررکھی تھی۔
اہم بات یہ ہے کہ انہیں سیاسی اورعسکری دونوں طرح کے تجربات میں ملکہ حاصل تھا، سابق سیاسی رہنما شہید ہنیہ کی شہادت کے بعد پوری حماس تنظیم ان پر متفق تھی۔
3: طوفان الاقصیٰ کا منصوبہ ساز؛
گزشتہ سال 7 اکتوبر کو کامیابی کے ساتھ انجام پانے والے حملے، جنہوں نے دنیا کے سیاسی اور فوجی ماہرین کو حیران کر دیا، ایسے منظم طریقے سے انجام دیے گئے کہ اسرائیلی شیطانی نیٹ ورک کی حفاظتی چھتری اور تمام تر تدابیرکو تباہ کرکے، امریکہ ویورپ کی جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی سے لیس قابض افواج کو حیرانی وسراسیمگی کی کیفیت میں مبتلاکردیا۔
4: جیلوں کا جانباز؛
شہید سنوار یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران اپنے دوستوں کے ساتھ مقاومت اسلامی کے جلسے منعقد کیا کرتے تھے، وہ اسرائیل کے خلاف خفیہ اور کھلے بندوں کاروائیوں میں شریک ہوتے، اسی لیے وہ چار بار گرفتار ہوئے، جس میں اپنی عمر کی دو دہائیاں گزاردیں، مختلف قسم کی بیماریوں اور شدید تشدد کے باوجود ان کے نظریہ میں سرمو فرق نہ آیا اورغیرت وبہادری سے اپنی زندگی گزارتے رہے۔
5: خاندان شہداء کا ایک فرد؛
شہید سنوار نے بھی شہید ہنیہ کی طرح اپنے خاندان کے درجنوں افراد کو جہاد اور فلسطین کی آزادی کے لیے قربان کیا اور آخر کار انہوں نے بھی ان کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کا اختتام شہادت جیسی عظیم الشان عبادت سے کیا۔
6: اپنے قائد کا قابل اعتماد جنگجو؛
شہید سنوار اپنی جوانی کے زمانے سے ہی اسلامی تحریک حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے قابل اعتماد نوجوان تھے،
ان کی رہنمائی اورزیرتربیت پرورش پائی اور ایسے غازی بنے جنہوں نے شہادت تک حرکت اسلامی کے طریقہ کار اورجہاد کو ایک لحظے کے لیے بھی فراموش نہ کیا۔
اور آخر کار اس فداکار نے بڑے خلوص کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا کہ یا تو وہ فلسطین کی مقدس سرزمین کو اسرائیل کے ناپاک منصوبوں سے بچائے گا یا پھر شہادت کا پیالہ پیے گا۔
غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس مہاجر کیمپ میں 1962ء کو پیدا ہونے والا بچہ؛ 62 سال کی قابل فخرعمر گزارنے کے بعد، خندہ جبیں، شاداں وفرحاں خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔
ہاں! شہید سنوار کے خون کا ہر قطرہ آج کے عالم اسلام بالخصوص ہمسایہ عرب ممالک کے مغرب زدہ اور منحرف امراء کو پکارتا ہے کہ اگر وہ فلسطین اورغزہ کے مظلوم عوام کی مدد نہیں کر سکتے، تو کم از کم اپنے ناپاک زبانوں اور غلامانہ پالیسیاں کوتو بند کرلو، اگر فلسطینی بچے اور شہید ماں کی آواز اپنے مغربی آقاؤں کے خوف سے نہیں اٹھا سکتے؛ تو حرکت اسلامی اور حماس کے مجاہدین اور ان کی جدوجہد کے خلاف انسانی حقوق اور جمہوریت کے تعفن زدہ دین سے نکلے ہوئے الزامات اور بے بنیاد تہمتیں تو مت لگاؤ۔