۲۳ سال قبل ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ، نیٹو اور اس کے اتحادی ممالک نے افغانستان پر حملہ کیا، یہ حملہ اس لیے کیا گیا کہ یہاں دہشت گردی کے مراکز ہیں اور یہاں سے بین الاقوامی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔
اس حملے کے نتیجے میں افغانستان میں اسلامی نظام تباہ ہو گیا، تمام افغان ہوائی اڈے، عمارتیں، قومی اثاثے اور سب کچھ لوٹ لیا گیا۔ افغانستان پر قبضے کے بعد امریکہ نے انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کیا۔
امریکہ نے ہزاروں معصوم عوام کو شہید کیا، ہزاروں افراد کو گوانتانامو، بگرام اور پلچرخی جیلوں میں بھرا۔ ہر وہ شخص جو ان کے قبضے کے خلاف آواز اٹھاتا، شہید کر دیا جاتا یا ان کے پر وحشت زندانوں میں ڈال دیاجاتا۔
یہ افغانستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دور تھا، جس میں افغانستان کی آزادی تھی نہ ہی عزت تھی اورنہ اس کے ہاتھ میں کوئی زمین تھی اور نہ فضا۔ امریکہ، نیٹو اور یہاں موجود ان کے اتحادیوں نے اس تاریک دور میں وہ مظالم ڈھائے جن کی نظیر افغانستان کی معاصر تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
امریکی افواج افغانوں کے گھروں پر رات کو چھاپے مارتی، افغان عوام کو بے دردی سے شہید، زخمی اور قیدی بنایا جاتا۔
اعداد و شمار کے مطابق صرف ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۹ء تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملوں میں ایک لاکھ سے زائد عام افغان شہری شہید ہوئے اور امریکہ نے افغانستان میں انسانیت کے خلاف سینکڑوں دیگر جرائم کا ارتکاب کیا۔
لیکن اس ملک کے بہادر، سچے اور آزادی کے متوالے مجاہدین نے ان کے خلاف مزاحمت اور جہاد شروع کر دیا۔ مجاہدین نے افغانستان کے ہر صوبے، ضلع اور گاؤں میں امریکہ، نیٹو اور اتحادیوں کے خلاف حملے کیے اور انہیں بھاری مالی اور جانی نقصان پہنچایا۔
مجاہدین نے نہایت بہادری سے ان کا مقابلہ کیا، انہیں ہر جگہ نشانہ بنایا اور افغانستان کی سرزمین کو قابض افواج کے لیے جہنم بنا دیا۔
آخر کار امریکہ نے ۲۹ فروری ۲۰۲۰ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امارت اسلامیہ کے ساتھ شکست کے معاہدے پر دستخط کیے۔
معاہدے کے مطابق امریکہ اور نیٹو نے افغانستان سے اپنی تمام فوجیں واپس بلا لیں، امریکہ کی قائم کردہ کابل کی انتظامیہ ختم ہوئی اور ۱۵ اگست ۲۰۲۱ء کو امارت اسلامیہ نے پورے ملک کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
امارت اسلامیہ کے مجاہدین اور افغان عوام کے ۲۰ سال کے جہاد اور مزاحمت کے بعد افغانستان نے ایک بار پھر آزادی حاصل کی، اسلامی نظام غالب ہوا اور پورے ملک میں امن و سلامتی کا دور دورہ شروع ہوا۔