خوارج تمام امت کے لیے کینسر ہیں اور مسلمانوں کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں۔ وہ جو بھی دلیل اپنی صفائی میں لے کر آتے ہیں، اسی دلیل کے ذریعے وہ اپنی خارجیت کو بعینہ اسی طرح ثابت کر دیتے ہیں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل ان کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی تھے اور خوارج کے حوالے سے فرمایا تھا:
يَقْرَؤُونَ القُرْآنَ يَحْسَبونَ أَنَّه لَهُمْ، وهو عَلَيْهِمْ
ترجمہ: وہ قرآن پڑھٰں گے اور خٰال کریں گے کہ یہ قرآن ان کے لیے حجت بنے گا لیکن (حال یہ ہو گا کہ) وہ ان کے اوپر وبال اور ان کے خلاف حجت بن جائے گا۔
خراسانی خوارج نے گزشتہ عید کی مناسبت سے اپنے نشر کردہ پیغام میں دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ ہجرت اور قتال کریں اور انہیں پناہ یں۔ ہجرت اور قتال دین اسلام کے مقدس مفاہیم ہیں، لیکن اگر خوارج کی جانب سے موجودہ انداز میں ان کلمات کے استعمال کا بغور جائزہ لیں، تو درحقیقت انہوں نے ہجرت اور قتال کے مفاہیم کا مذاق بنایا ہے۔ نعوذ باللہ
ہجرت دار الکفر سے دار الاسلام کی جانب کی جاتی ہے۔ خوارج ساری دنیا کو دار الکفر قرار دیتے ہیں۔ صرف اس جگہ پر دار الاسلام انہیں نظر آتا ہے جہاں ان کی موجودگی اور اقتدار ہو۔ وہ جو لوگوں کو دار الاسلام کی جانب ہجرت کی دعوت دیتے ہیں، تو ان کے پاس ایسی جگہ تو ہونی چاہیے کہ اس میں دارالاسلام کی شرائط پوری ہوں۔ وہ خراسان کے کس علاقے پر اختیار رکھتے ہیں؟ اپنے سونے اور کھانے کی جگہ کے علاوہ کس جگہ پر انہیں تمکین حاصل ہے؟ کیا خراسان میں صرف ان کی خوابگاہیں اور تین چار کمروںے والے گھر دار الاسلام ہیں؟ اگر خوارج کی خواب گاہ تک دار الاسلام میں نہیں اور وہ پھر بھی لوگوں کو ہجرت کی دعوت دیتے ہیں تو کیا یہ ہجرت کی اس عظیم اصطلاح کا مذاق اڑانا نہیں؟
وہ لوگوں کو خراسان میں قتال کی دعوت دے رہے ہیں (جس کا بہت حد تک مرکز افغانستان ہے)، جبکہ خود مبلغین کے درمیان جنگ کے مقتولین کے قتل کے جواز پر بحثیں ایک دوسرے کی تکفیر کرنے کی حد تک پہنچ چکی ہیں۔ایک دوسرے کی تکفیر کرنے کی حد تک پہنچ چکی ہیں۔ وہ خراسان میں کسے کے خلاف، کس کے فتویٰ پر، کس کے کہنے پر جنگ کر رہے ہیں؟ وہ خراسان میں ان لوگوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں جنہیں نے انہیں ہجرت، جہاد اور قتال جیسے مفاہیم سکھائے ہیں۔ انہیں افغانستان میں جہاد اور قتال جیسے مقدس ناموں کے تحت فساد کا جواز اس نے دیا ہے جو تقریبا سات سال قبل پاکستانی "طواغیت” کی چھتری تلے زندگی بسر کر رہا تھا اور جہاد کا نام بھی اپنے منہ سے نہیں لیتا تھا (اور اگر موجودہ حالت کو دیکھیں تو سات سال پہلے وہ خود کافر تھا)۔ اس فساد کے جواز کا فتویٰ ایک ایسے شخص کے منہ سے صادر ہوتا ہے جو چند سال قبل خود طاغوت کا نوکر تھا۔ اور اس فساد کے فتویٰ کی تطبیق بھی وہ کچے ذہن کے جذباتی نوجوان کرتے ہیں جنہوں نے حال ہی میں اسلام کا نام سنا اور ماضی میں فحاشی اور بے دینی میں ڈوبے ہوئے تھے۔جنہوں نے حال ہی میں اسلام کا نام سنا اور ماضی میں فحاشی اور بے دینی میں ڈوبے ہوئے تھے۔
خوارج کے ان مضحکہ خیز، بے معنی اور دین اسلام کے مقدس مفاہیم کا مذاق اڑانے والے پیغامات سے صرف ان جیسے سفھاء الاحلام ہی دھوکہ کھائیں گے، اور ان دھوکے بازوں کا انجام بھی ماضی کے خوارج کی طرح خاسرین میں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ایسے حال میں پڑنے سے محفوظ رکھے۔